بادشاه عقل و دل-ملّا وجہی
Badshah Aqal wo Dil By Mulla Wajhi
مندرجہ ذیل مضمون مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایند ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کی جماعت دہم کے مضمون اردو سے ماخذ ہے۔ یہ مضمون طلباء ، اساتذہ اور سرپرستوں کی رہنمائی کے لئے یہاں شائع کیا جاتا ہے۔
ایک شہر تھا۔ اس شہر کا ناوں سیستان ۔ اس سیستان کے بادشاہ
کا ناوں عقل ۔ دین و دنیا کا تمام کام اس نے چلتا۔ اس کے حکم باج ذرا کیں نہیں
ملتا۔ اس کے فرمانے پر جو چلے، ہر دو جہاں میں ہوئے بھلے۔ سو اس عقل بادشاہ کوں،
عالم پناہ کوں ، ظل اللہ کوں ، صاحب سپاہ کوں ایک فرزند تھا کہ اس کا جوڑا دنیا
میں کئیں نہ تھا۔ واصل کامل ، عاشق عاقل، عالم عامل ، ناوں اس کا دل تخت و تاج کا
لائق ، سب پر فائق ، بات میں قابل، سچ میں فاضل ۔ سو ایک دیس ، اس عقل بادشاہ ،
حقیقت آگاہ کے دل پر کچھ آیا، اپنا اندیشہ اپس کوں بھایا۔ سو اس کوں ، اس شاہ زادے
کوں ، اس ماہ زادے کوں ، اس متقی کوں ، اس سب علماں کے دھنی کوں تن کے ملک کی
بادشاہی دیا۔ تن ن کے ملک کا بادشاہ کیا ، سرفراز کیا ، ممتاز کیا۔ دل بادشاہ کے
ہات میں تن کا ملک آیا۔ ٹھارے ٹھار، کو نچے کو نچے ، بازارے بازار اپنی ڈراہی
پھرایا۔ تن دل کا فرماں بردار، جوں نفر خدمت گار ۔ جدھر دل جاتا، دل کے پچھیں تن
بی آتا۔ نوے نوے قانون دھر نے لگیا ۔ دل ، تن کے ملک کی بادشاہی کرنے لگیا ۔
القصہ ایک رات دل بادشاہ کم بارچ ، طنبور، قانون ، عود منگا
کر، مطرباں خوش سرور بلا کر مجلس کیا۔ ارکان دولت ، ندیم ، قصہ خواں ، خوش طبعاں،
لطیفہ گویاں، حاضر جواباں ، گل رویاں، خوش خویاں سب حاضر تھے۔ بارے اس وقت ایکا یک
عین مستی میں ، فراغ دستی میں، اس کمال ہستی میں، ایک قدیم ندیم ، بھوت لطافت سوں،
بھوت فصاحت سوں، بھوت بلاغت سوں، بات کا سر رشتہ کا ڑ کر، ایک تازے آب حیات کا قصہ
پڑیا۔ ولے پڑتے وقت اس قصے کی مستی چڑی، سو آپے بی تک گر پڑیا۔ دل کھولیا، بات
سنیا تھا سو بولیا کہ جو گئی یو آب حیات کو پیوے گا ، دوسرا خضر ہو دے گا۔ اس جنگ
میں سدا جیوے گا۔ دنیا میں جیونا ایسچ کا ہے۔ جو گئی یو آب حیات پیا ئیں، تو دنیا
میں عبث آیا۔ کیا لذت دیکھی ، کچھ نہیں کیا۔ عبث جیا۔ جس کے دل میں یونیں طمع ،
کیا جیونا اس کا ، کس جیونے میں جمع ۔جس کے آب حیات ہوں تر ہوئیں گے لب ، حیران ہو
دے گا ، تماشا دیکھے گا عجب عجب۔ اس آب حیات کی بات کا اثر بھوت وھاں ہوں دل
بادشاہ کے سر چڑیا۔ دل بادشاہ اس آب حیات کی بات پر مطلق عاشق ہوا، بیتاب ہو پڑیا۔
دل بھونچ طالب ہوا۔ اشتیاق غالب ہوا۔ بات سنتے اس حال کو انپڑیا، عاشق تھا بچارا
بیگیچ سنپڑیا۔
القصہ دل بادشاہ، حقیقت آگاہ بھوت بے دل ہوا۔ دل پر کام
مشکل ہوا۔ شہر سب حیران ، گھر گھر لوگاں پریشان۔ جتے جتا دوڑے، سرگرداں ہو کر سب
سر پھوڑے۔ پیشوا، دبیر، امیر، وزیر گئی کرئیں سکے اس کی تدبیر۔ ویسے میں دل بادشاہ
کوں، خصوص ایک جاسوس تھا، اس کا ناول نظر ۔ سب ٹھاوں اس کا گزر ۔ سب جگہ کی معلوم
اسے خبر کئی نہ جاسکے وہاں جاوے۔ گئی نہیں خبر لیا تا سوخبر لیاوے۔ سو و و نظر
جاسوس دل بادشاہ کے حضور آکر تسلیم کر بولیا کہ اے دل بادشاہ، عالم پناہ! مجھے
رخصت دے۔ اس کام کوں میں جاؤں گا ۔ جدھر کدھر ڈھونڈ کرتوں منگتا ہو آب حیات کی خبر
میں لیاؤں گا۔ بارے دل بادشاہ نظر کی یو بات سنیا تو خوش ہوا ۔ نظر جاسوس کوں
شاباش شاباش کہیا۔ گلے لگایا، خدا کی درگاہ اُمیدوار ہو کر رضا دیا کہ تو جا، یو
خوش خبر لے کر بیگ آ ۔ تاخیر نکو کر، اس کام کو تقصیر نکو کر۔ مبارک ہے، جاگے تیرے
نصیب کہ نصر من اللہ و فتح قریب۔
0 Comments