باغ نخلہ کے مسافر پر
سلام
- سلیم شہزاد
Bag
e Naqla Ke Musafir Par Salam By Salem Shahezad
مندرجہ ذیل مضمون مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایند ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کی جماعت دہم کے مضمون اردو سے ماخذ ہے۔ یہ مضمون طلباء ، اساتذہ اور سرپرستوں کی رہنمائی کے لئے یہاں شائع کیا جاتا ہے۔
وہ اندھیروں میں اُجالے بانٹنے نکلا
تو مسموم آندھیاں
اس کے چراغ شمس آسا کو بجھانے کے لیے
گرداں ہوئیں
مجنون و کا ہن کہہ کے اس کے علم ربانی
کو
اس کے وسوسوں کا روپ جانا
وہ تو تشکیک و گمان و وہم سے آزاد تھا
لیکن چہار اطراف مسموم آندھیاں
وہم وگماں کے بیچ ہوتے پھر رہی تھیں
شہر، قریہ، کوچہ، کوئی گھر نہ ان سے
بچ سکا
اور اب یہ طائف ہے جہاں آوارہ لڑکے
صدق پیغمبر پہ برساتے ہیں پتھر
پھول سے پیکر پہ برساتے ہیں پتھر دھوپ
میں لوگ پتھر ہو گئے ، پتھر اٹھا کر
دھوپ میں
خون میں اپنے نہایا سر سے لے کر پاؤں
تک
جل اُٹھا سرخی سے سارا ریت منظر دھوپ
میں
بھر گئے نعلین گردوں قدر دونوں خون سے
اور کتنے زخم کھائے جسم اطہر دھوپ میں
وہ اندھیروں میں اجالے بانٹنے نکلا
مگر
ان اندھیروں نے اٹھا رکھا ہو جو سر
دھوپ میں
جب فرشتہ
کوہ طائف کو ستمگاران طائف پر گرانے
کے لیے تیار تھا
تو وہ جو تھا آزاد تشکیک و گماں سے ،
بن گیا
اہل طائف کے لیے رحمت کی چادر دھوپ
میں
اے کہ جس نے باغ نخلہ کو بنایا گھر ،
سلام
باغ نخلہ کے مسافر پر سلام
ہے اندھیروں میں اُجالا تیرا نام
شہر ظلمت میں ہمارے، روشنی کرتا رہے
تیرا کلام
0 Comments