قصہ
سوتے جاگتے کا - ڈاکٹر نیر مسعود
Khissa
Sote Jagte Ka By Doctor Neer Masud
مندرجہ ذیل مضمون
مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایند ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کی جماعت دہم کے مضمون اردو سے ماخذ ہے۔ یہ
مضمون طلباء ، اساتذہ اور سرپرستوں کی رہنمائی کے لئے یہاں شائع کیا جاتا ہے۔
یہاں ان کا ایک ڈراما پیش
کیا جاتا ہے جو الف لیلہ کی داستان سے ماخوذ ایک واقعے پر مبنی ہے۔
کردار
بارون رشید : آٹھویں صدی
عیسوی میں اسلامی دنیا کے خلیفہ
ابو الحسن بغداد کا ایک نوجوان
جعفر :ہارون
رشید کا وزیر
مسرور : ایک سردار
کافور :حبشی غلام
ابوالحسن کی
ماں
تین پڑوسی ،
داروغہ اور دوسرے درباری، امیر، افسر، کنیزیں اور غلام
منتظر - 1
مقام :
بغداد کاپل
(ابوالحسن دجلہ کے پل پر بیٹھا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ خلیفہ
ہارون رشید ایک غلام کے ساتھ سوداگر کے بھیس میں آتے ہیں)
ابو الحسن : (خلیفہ سے ) بھلے آدمی تمھارا
لباس بتاتا ہے کہ تم بغداد کے رہنے والے نہیں ہو۔
خلیفه : میاں تم نے خوب پہچانا۔ میں موصل کا
سوداگر ہوں۔
ابو الحسن : بس تو بھائی موصل کے سوداگر ! کیا آج
رات میرے غریب خانے پر چلنے کی زحمت کروگے؟ وہاں ہم دونوں عمدہ کھانا کھائیں گے۔
خلیفه : بڑے شوق سے چلوں گا۔ بھلا اتنی محبت سے
دی ہوئی دعوت کون ٹھکر اسکتا ہے؟
ابو الحسن : ( اٹھ کھڑا ہوتا ہے ) آؤ چلو ...(رک کر )مگر
ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ ہماری دوستی صرف آج تک رہے گی۔
خلیفہ : (حیران ہو کر ) یہ کیسی شرط ہے
بھائی ؟ تم تو عجیب آدمی معلوم ہوتے ہو!
ابو الحسن : یہ شرط اس لیے ہے کہ کہیں تم میرے دوست
نہ بن جاؤ۔ میں دشمنوں سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا دوستوں سے۔
خلیفه : بھائی ! آخر معاملہ کیا ہے؟
ابو الحسن : معاملہ میں سمجھائے دیتا ہوں ۔ (پل پر بیٹھ
جاتا ہے۔ خلیفہ اور غلام بھی بیٹھ جاتے ہیں )
خلیفه : ہاں ، اب سناؤ۔
ابو الحسن : میرا نام ابوالحسن ہے۔ میں ایک امیر
سوداگر کا بیٹا ہوں۔ باپ کے مرنے کے بعد ساری دولت میرے ہاتھ آئی جسے میں نے دل کھول
کر خرچ کیا۔ رو پیا آخر کب تک چلتا ؟
خلیفه : بے شک ، اگر قارون کا خزانہ بھی اس طرح
لٹایا جائے تو ایک دن ختم ہی ہو جائے گا۔
ابو الحسن : اسی طرح میری بھی دولت ختم ہوگئی۔ اب
غریبی جو آئی تو دوستوں نے ایک ایک کر کے کھسکنا شروع کر دیا۔ ایک مرتبہ میں نے
اپنے ان دوستوں سے کچھ رو پیا قرض مانگا مگر انھوں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔
خلیفہ : مطلب کے دوست اس کے سوا اور کیا دے
سکتے ہیں؟
ابو الحسن : پھر میں نے کچھ جائداد بیچ کر رو پیا
اکٹھا کیا اور اس سے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا۔ اب جو پیسے ملتے ہیں، انھیں
مزے مزے خرچ
کرتا ہوں۔ میں روز کسی اجنبی کو گھر لے جاتا ہوں۔ اس کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں اور
سویرے تڑ کے اُسے رخصت کر دیتا ہوں۔ یہ اس لیے کہ
دوستوں کی وجہ سے مل بیٹھ کر کھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ بس یہ ہے میری کہانی۔
خلیفه : دوست ، تم تو بڑے مزے کے آدمی ہو !
چلو ، مجھے تمھاری دعوت منظور ہے۔
ابو الحسن : آؤ چلیں۔
منظر -۲
مقام :
ابوالحسن کا مکان
(ابو الحسن اور خلیفہ کھانا کھا چکے
ہیں اور شربت پی رہے ہیں۔ طشتریوں میں میرے رکھے ہیں)
خلیفه : واللہ ابوالحسن! میں نے دنیا جہان کے
کھانے کھائے مگر یہ مزہ کہیں نہ پایا جو تمھارے یہاں ملا۔ جی چاہتا ہے روز ہم تم
مل کر اسی طرح
کھایا پیا کریں۔
ابو الحسن : دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔
خلیفه : ٹھیک ہے۔ اچھا تم آرام کرو۔ میں اب
سوتا ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تمھارے اس احسان کے شکریے میں کچھ میں بھی تمھاری خدمت کروں ۔
ابوالحسن : تمھارا یہی احسان کیا کم ہے کہ تم نے
میری دعوت قبول کی ۔ ( کچھ سوچ کر) میں ایک مصیبت میں پھنسا ہوا ہوں مگر تم پردیسی اس میں میری کیا مدد کر
سکتے ہو؟
خلیفه : بتاؤ، بتاؤ۔ شاید میں کسی کام آسکوں۔
ابوالحسن : بھائی،
ہمارے محلے میں ایک امیر شخص ہے۔ اس کے چار یار بھی ہیں۔ یہ پانچوں مل کر محلے بھر
کا ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔
خلیفہ : (سوچتے ہوئے) مگر اُن کا علاج
کیا ہونا چاہیے۔
ابو الحسن : علاج ؟ فتنے میں فرش پر ہاتھ مار کر
اگر خدا ایک دن کے لیے مجھے خلیفہ ہارون رشید کی جگہ دے دے تو تمھیں بتاؤں کہ ان لوگوں
کا علاج کیا ہو سکتا ہے؟
خلیفه : بھلا وہ کیا؟
ابوالحسن : وہ یہ کہ اس منحوس آدمی اور اس کے
چاروں گرگوں کی پیٹھ پر سو سو کوڑے لگوا دوں ۔ پھر ان سے کہوں کہ دیکھو، پڑوسیوں
کو ستانے کی یہی
سزا ہے۔
خلیفه : (کچھ سوچ کر مسکراتا ہے ) کون
جانے ، خدا تمھیں سچ مچ ایک دن کے لیے خلیفہ بنا دے۔ خلیفه
ابو الحسن : تم میرا مذاق اُڑاتے ہو! اور ٹھیک بھی
ہے۔ اگر خلیفہ سن لے تو وہ بھی میری خوب ہنسی اُڑائے۔
خلیفه : ( ابو احسن کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے ) کیا
بات کرتے ہو دوست۔ تم نے میری اتنی خاطر کی ۔ بھلا میں تمھارا مذاق اُڑاؤں گا۔
اچھا آدھی رات ہونے
آئی ہے۔ اب سونا چاہیے۔
ابو الحسن : یہ تھوڑا سا شربت بیچ رہا ہے۔ اسے بھی
ختم کر دو۔ اور سویرے یہاں سے چلتے وقت باہر کا دروازہ بند کرتے جانا۔
ٹھیک
ہے۔ مگر یہ بچا ہوا شربت تمھیں میرے ہاتھ سے پینا پڑے گا۔ خلیفه
(ابو الحسن کی نظر بچا کر اس میں بے
ہوشی کی دو املا دیتے ہیں جسے پیتے ہی ابو الحسن بے ہوش ہو جاتا ہے)
منظر - ۳
مقام :
خلیفہ کا محل
(خلیفہ داخل ہوتے ہیں۔ پیچھے پیچھے غلام ابو احسن کو کندھے پر لادے
ہوئے آتا ہے )
خلیفہ : دیکھو!
(ابوالحسن کی طرف اشارہ کر کے) اس جوان کو میں ایک دن کے لیے اپنی جگہ دے رہا ہوں
۔ تمھارا فرض ہے کہ جس طرح مجھے سلاتے ہو، اسی طرح اسے سلاؤ۔
جس طرح مجھے سرکہ سنگھا کر جگاتے ہو، اسی طرح اسے بھی جگاؤ ۔ جس طرح مجھے امیر المومنین کہہ کر
پکارتے ہو ، اسی طرح اسے بھی امیر المومنین کہہ کر پکارو۔ جعفر اور مسرور کو بلاؤ۔
(جعفر اور مسرور آ کر سلام کرتے ہیں )
خلیفہ : (سلام کا جواب دے کر ) مسرور ! ایک دن کے لیے میری جگہ یہ جوان تمھارا
آتا ہے۔ جس طرح روز سو میرے تم مج مجھے نماز کے
لیے اُٹھاتے ہو اسی طرح اس کو بھی اُٹھانا اور جعفر ! کل یہ آدمی میری جگہ تخت پر
بیٹھے گا۔ جس طرح میرا حکم مانتے ہو، اسی طرح
اس کا بھی حکم ماننا۔ جس کو یہ سزا دلوائے ، اس کو فوراً سزا دینا اور جس کو یہ
انعام دلوائے ، اس کو فوراً انعام دینا۔ بس اب تم اس کو میرے کپڑے پہنا کر بستر پر لٹاؤ۔ میں صبح
یہیں چھپ کر اس کے جاگنے کا تماشا دیکھوں گا۔
منتظر - ۴
مقام :
خلیفہ کی خواب گاہ
(ابو
الحسن بڑے بے سکے پینا سے خلیفہ کے بستر پر سورہا ہے۔ دور سے مرغ کی آواز سنائی
دیتی ہے۔ پھر کہیں قریب ہی سے اذان کی
آواز آتی ہے۔ خدمت گار داخل ہوتے ہیں۔ سرور ابو الحسن کو جگانے کے لیے کپاس کے چچا
ہے کو سرکے میں تر کر کے اس کی
ناک کے قریب کرتا ہے۔ ابوالحسن زور سے
چھینکتا ہے )
ابوالحسن : (آنکھیں بند ہیں) آخ تھو۔ (ایک کنیز لپک کر سونے
کا اگالدان اس کے منہ کے آگے کر دیتی ہے) کیا مزے کی نیند آئی تھی۔ ( رضائی کو اپنے اوپر
کھینچنا چاہتا ہے لیکن اس کی نری محسوس کر کے آنکھیں کھول کر اسے غور سے دیکھتا ہے)
، کتنی عمدہ !...م...
مگر یہ تو میری
نہیں ہے۔ ( سامنے کھڑی ہوئی کنیزوں اور غلاموں پر نظر پڑتے ہی بوکھلا
کر اُٹھ بیٹھتا ہے۔ ایک ایک کنیز اور غلام کو
باری باری گھور کر دیکھتا ہے۔ کچھ دیر تک بیٹھا رہتا ہے۔ آخر چہرے پر اطمینان کی
جھلک آجاتی ہے۔ بڑبڑاتا ہے) آہ، خواب ! مگر
کتنا حسین ! (آنکھیں بند کر کے لیٹنے لگتا ہے۔ سامنے پردے کے پیچھے سے
خلیفہ جھانکتے ہیں اور پھر بٹ جاتے ہیں )
مسرور : (آگے بڑھ کر ابو الحسن
کے نشانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ) امیر المومنین اٹھیے، نماز کا وقت جارہا ہے۔
ابو الحسن : ایں ؟
امیر المومنین ؟ یعنی خلیفہ؟ ( دیدے نچاتا ہے )مگر بھلے مانس میرا نام ابوالحسن ہے۔
مسرور : ( ہنستاہے) حضور نداق فرمارہے ہیں ... اور ابوالحسن کون؟
حضور کی زبان سے پہلی مرتبہ یہ نام سن رہا ہوں !
ابوالحسن : (حیرت سے مسرور کو تکتا
ہے) میں جاگ رہا ہوں کہ
سو رہا ہوں؟
امیر المومنین ! کیا خدا
نخواستہ طبیعت کچھ ناساز ہے۔ مسرور
ابو الحسن : (چونک کر آنکھیں کھول
دیتا ہے) پیارے
بھائی ! ذرا غور سے دیکھو مجھے۔ کیا تم مجھ کو پہچانتے ہو؟
مرور :
امیر المومنین! آج آپ کی زبانِ مبارک سے یہ غلام عجیب باتیں سن رہا ہے۔ آپ سارے
مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔
ابو الحسن : ( پیٹ پکڑ کر زور دار
قیمہ لگاتا ہے )ہا
ہا ہا ہا۔ ہم تمھاری باتوں سے خوش ہوئے ۔ ( اشارے سے ایک کنیز کو
پاس بلاتا ہے )
کنیز : (ادب سے جھلکتی ہے ) کنیز کے لیے کیا حکم ہے؟ امیر المومنین !
ابو الحسن : (اس کی طرف ہاتھ
بڑھاتا ہے ) نیک بخت
! لے ذرا میری انگلی میں کاٹ تو سہی۔ دیکھوں، جاگ رہا ہوں کہ سوتا ہوں ۔( کنیز اس کی انگلی میں زور سے
کانٹتی ہے۔ ابو احسن تلملا کر ) ارے مر گیا۔ کم بخت ! بتا تو نے کس کی انگلی میں کا نا؟
کنیز : (ادب سے) امیر المومنین ! میں نے آپ کے حکم سے آپ کی شان
میں یہ گستاخی کی ہے۔ مجھے معاف کر دیجیے۔
ابو الحسن : ( بانچھیں کھل جاتی ہیں
) معاف کیا۔ بالکل معاف
کیا۔
(مسہری سے اُترتا ہے۔
مسرور اور سب مل کر ابو الحسن کو شاہی پوشاک پہناتے ہیں۔ پھر سب آہستہ آہستہ باہر
جاتے ہیں)
منظر - ۵
مقام :
خلیفہ کا دربار
(تخت بچھا ہوا ہے۔ کئی
امیر ، سردار اور وزیرقیمتی پوشاکیں پہنے با ادب کھڑے ہیں۔ ابو الحسن اور مسرور
داخل ہوتے ہیں۔ ابو الحسن
کے تخت پر بیٹھتے ہی ہر طرف سے مبارک سلامت کا شور اٹھتا ہے۔ جعفر تخت کے سامنے آ
کر جھکتا ہے)
جعفر : خدا
ہمیشہ امیر المومنین پر اپنی رحمتوں کا سایہ رکھے۔
حاضرین : آمین
آمین
ابو الحسن : (خوب اکڑکراور آواز کو
بھاری بنا کر جعفر سے ) ہم تمھاری وفاداری کی قدر کرتے ہیں۔ تمھیں اور کچھ عرض کرنا ہے؟
جعفر : امیر
المومنین کوئی حکم دینا چاہیں تو کو تو ال کو حاضر کیا جائے۔
ابو الحسن : بے شک ہم
کو دو بہت ضروری حکم صادر کرنے ہیں۔
کوتوال : (آگے بڑھ کر) غلام حکم کا منتظر ہے۔
ابو الحسن : کوتوال !
سوداگروں کے محلے میں رہنے والے امیر اور اس کے چاروں ساتھیوں کے سر پر تم ابھی جا
کر نازل ہو جاؤ۔ پانچوں کی پیٹھیں
ننگی کر کے ان پر کوڑے برساؤ ۔ سمجھ گئے ؟
کوتوال : اچھی طرح
امیر المومنین !
ابو الحسن : پھر ان
کے چہروں پر سیاہی مل کر، اونٹوں پر سوار کر کے سارے شہر میں پھر اؤ۔ ایک آدمی ان
کے آگے آگے اعلان کرتا جائے کہ
دیکھو لوگو ! یہ انجام ہے ان کا جو اپنے محلے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔
کوتوال : غلام ابھی
اس کا بندو بست کرتا ہے ... او ... دوسرا حکم امیر المومنین ؟
ابوالحسن : دوسرا
حکم یہ ہے کہ اسی محلے میں ابوالحسن نام کا ایک نوجوان رہتا ہے۔ اس کی ماں کو ایک
ہزار اشرفیاں دی جائیں ۔ بس جاؤ۔
(کو توال جاتا ہے )
منظر - ۶
مقام :
خلیفہ کا محل
(رات کے کھانے پر ہارون
رشید کے محل میں ابوالحسن کے آگے دستر خوان پر بہترین قسم کے کھانے بنے ہوئے ہیں۔
ابوالحسن کبھی اس
قاب پر ہاتھ مارتا ہے، کبھی اس پر)
ابو الحسن : (منہ میں بڑا سا نوالہ
ٹھونستے ہوئے) واہ واہ
! کیا لذیذ کھانا ہے ۔ ( سر اٹھا کر ایک ایک کنیز کو دیکھ کر) آؤ ، آؤ، تم لوگ بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ مجھے اکیلے
کھانے میں مزہ نہیں آتا۔ (کنیزیں جھجکتی ہوئی دستر خوان پر بیٹھتی ہیں۔ ابو
الحسن سب کی طشتریوں میں مٹھائی رکھتا ہے۔ پردے
کے پیچھے سے خلیفہ جھانک رہے ہیں۔ کنیزیں ابو الحسن کے ہاتھ دھلاتی ہیں۔ کچھ کنیز
میں اسے شربت پیش
کرتی ہیں ) واہ واہ
! شربت کا کیا کہنا ۔ ایک گلاس شربت اور پلا۔ ( خلیفہ پیچھے سے اشارہ کرتے ہیں۔
کنیز گلاس میں چپکے سے بے
ہوشی کی دو املا دیتی ہے۔ ابوالحسن اس گلاس کا شربت پی کر بے ہوش ہو جاتا ہے )
خلیفہ : (سامنے آکر) کا فور! اس کا لباس اُتار کر اس کے پرانے کپڑے
پہنا دو۔ اور اسے اس کے مکان میں ڈال آؤ۔ مکان کا دروازہ کھلا
چھوڑ دینا۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ اس کے محلے کے امیر اور اس کے چاروں ساتھیوں کو
ان کے کرتوتوں کی سزا ملے۔ میں
نے اس کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری کرادی ۔
منظر - ۷
مقام : ابو
الحسن کا مکان
(ابوالحسن اپنے بستر پر پڑا ہو رہا ہے۔ مرغ کی بانگ سن کر وہ ہر
بڑا کر کروٹ بدلتا ہے )
ابوالحسن : (آنکھیں بند ہیں۔ نیند
میں ڈوبی ہوئی آواز میں ) اوں... ہو نہہ... کہاں مر گئے سب کے سب ... مسرور جعفر ... !
(ابوالحسن کی ماں
گھبرائی ہوئی داخل ہوتی ہے )
ماں : ( ابوالحسن کا شانہ ہلا
کر ) کیا ہے
بیٹا ؟ یہ کن لوگوں کو پکار رہے ہو؟
ابو الحسن : چونک کر
ماں کو گھورنے لگتا ہے ) تم کون ہو بڑی بی ؟
ماں : (حیرت سے) اوئی بیٹا..؟ اپنی اماں کو نہیں پہچانتے؟
ابو الحسن : تیوریاں
چڑھا کر) کیا بکتی ہے بڑھیا ؟ ہم امیر المومنین ہیں۔ زبان سنبھال کر بات کر !
ماں :
ابوالحسن! تو کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے؟
الحسن : تو
مجھے نہیں جانتی۔ تو آب جان لے کہ میں خلیفہ، امیر المومنین ، تمام مسلمانوں کی
جان و مال کا مالک ہوں۔
ماں : (آنکھیں پھاڑ کر آسمان
کی طرف ہاتھ اٹھاتی ہے ) یا الہی، خیر ہو۔ کیا میرے بیٹے کے اندر کوئی جن سما گیا ہے۔ ( ابوالحسن سے
بہت پیار کے ساتھ) میرے لعل ! یہ تجھے کیا ہو گیا؟ دیکھ میں تیری
ماں ہوں ۔ تو میرا بیٹا ابوالحسن ہے۔
ابوالحسن : (پریشان نظروں سے چاروں
طرف دیکھتا ہے ) نہیں۔
(آنکھیں بند کر کے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد آنکھیں کھولتا ہے ) ہاں
اماں تم ٹھیک کہتی ہو۔ یہ میرا ہی مکان ہے اور میں ابوالحسن ہوں ۔... مگر ...سمجھ
میں نہیں آتا۔ یہ شاہی محل میرے دماغ
میں کیوں کر سما گیا !
ماں : (خوش ہو کر بلائیں لیتی
ہے ) اے میں
قربان کبھی کبھی آدمی ایسے بھی خواب دیکھنے لگتا ہے۔
ابو الحسن : خواب ؟
ہاں ہو سکتا ہے یہ خواب ہی ہو۔ میں نے دیکھا کہ میں خلیفہ ہوں۔ میری خدمت کے لیے
کنیزیں اور غلام ہیں۔ (ہاتھ سے ماتھا رگڑتا ہے) ... مجھے خود یقین نہیں آتا تھا۔ تب میں نے ایک
کنیز سے کہا۔ ذرا میری انگلی میں کاٹ... (ایک دم اپنی انگلی ہاتھ سے پکڑ کر چلانے
لگتا ہے ) ...نہیں
نہیں ... یہ خواب نہیں ہو سکا ... ہٹو ، مجھے جانے دو، میرے دربار کا وقت ہو گیا
ہے۔ (اٹھنے لگتا ہے)
ماں : (ابو الحسن کے دونوں
ہاتھ پکڑ کر) بیٹا،
خدا کے لیے .. ہوش کی باتیں کر ۔ یہ کیا بک رہا ہے ؟ کہیں خلیفہ کو خبر ہوگئی تو
تیرا بھی وہی حال
ہوگا جو ہمارے محلے کے امیر اور اس کے ساتھیوں کا ہوا ...!
ابو الحسن : (امیر کے ذکر پر چوکنا
ہو کر ) کیوں،
کیوں؟ انھیں کیا ہوا ؟
ماں : اے
ہونا کیا تھا! جب ان کی بدمعاشیاں حد سے بڑھیں تو کل کوتوال نے خلیفہ کے حکم سے سب
کو خوب کوڑے لگوائے ۔ پھر ان کے
منہ پر کالک پوت کر اونٹ پر الٹا سوار کیا اور سارے شہر میں گھمایا۔ مجھے ڈر ہے
خدا نخواستہ تیری بھی یہی گت
....
ابوالحسن : (اچھل کر) میں نے کیا کہا تھا۔ کیوں بڑی بی ۔ اب بھی تجھے
یقین نہیں آیا ؟ کان کھول کر سن لے کہ وہ میں ہی تھا جس نے امیر کو سزا دینے کا حکم دیا تھا
اور تو ہے کہ اتنی دیر سے مجھے معلوم نہیں کیا سکھا پڑھا رہی ہے !
ماں : (رونے لگتی ہے) اللہ ! یہ میرے بچے کو کیا ہو گیا !
ابو الحسن : (شاہی لہجے میں ) سچ سچ بتا کہ میں تیرا کون ہوں :؟
ماں : ( آنسو پونچھ کر
ابوالحسن کی بلائیں لینے لگتی ہے) تو ! تو میرا لعل ابو الحسن ہے۔ تجھے میں نے اپنی گود میں کھلایا ہے۔ آج نہ
جانے کیوں تو خود
کو امیر المومنین کہے جا رہا ہے۔ امیر المومنین تو ہم اپنے خلیفہ ہارون رشید کو
کہتے ہیں، تو بھلا ایسے بادشاہ کی برابری کیا کر
سکتا ہے جو اپنی رعایا کو بے مانگے ہزار ہزار اشرفیاں بانٹ دیتا ہے۔
ابوالحسن : (اشرفیوں کے ذکر پر
چونکتا ہے ) اشرفیاں
! کیسی اشرفیاں ؟
ماں : ابھی
کل جس وقت اس امیر اور اس کے گرگوں کو مار پڑ رہی تھی، کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
میں نے دروازہ جو کھولا تو کیا دیکھتی ہوں
کہ ایک غلام کھڑا ہے۔ پوچھنے لگا، ابوالحسن کی ماں تم ہی ہو؟“ میں نے کہا، "
ہاں “ بس یہ سنتے ہی اس نے ایک تھیلی میری طرف
بڑھائی اور بولا ” لو بڑی اماں، اس میں پوری ایک ہزار اشرفیاں ہیں اور یہ تم پر
خلیفہ کی عنایت ہے۔
ابو الحسن : ( زور سے بنتا ہے) کیوں ! اب بول ، کیا کہتی ہے ۔( چھاتی ٹھونک کر ) وہ اشرفیاں میں نے بھجوائی تھیں۔ (اُٹھ کر چلنے لگتا ہے۔
ابو احسن کی ماں دونوں
ہاتھوں سے اس کی کمر پکڑ لیتی ہے)
ماں : (چیخ کر) ارے کہاں جاتا ہے۔ کیا تجھے اسی دن کے لیے بڑا کیا تھا ؟
(تین پڑوسی روڑتے ہوئے
اندر آتے ہیں اور مال کو اس سے چھڑاتے ہیں)
پہلا پڑوسی : ہائیں
ابوالحسن ! تجھے اپنی ماں سے جھگڑتے شرم نہیں آتی۔
ابوالحسن : (غصّے میں) میں نہیں جانتا ابوالحسن کسی گدھے کا نام ہے
اور اس کی ماں کون ہے۔
دوسرا پڑوسی :
یہ تیرا گھر نہیں تو اور کس کا ہے؟ اور یہ بوڑھی خاتون تیری نہیں تو کیا ہماری ماں
ہے؟
ابوالحسن : بکواس مت
کر گستاخ آدمی ۔ یہ میری کچھ نہیں لگتی۔ نہ یہ گھر میرا ہے۔ سن لو کہ میں امیر
المومنین ہوں ۔ تم سب کا بادشاہ !
ہائے اللہ ! صبح سے یہی
رٹ لگی ہوئی ہے کہ میں امیر المومنین ہوں۔ (رونے لگتی ہے )
تیسرا پڑوسی :
میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ پاگل ہو گیا ہے۔
ابوالحسن : کیا !
تیری یہ ہمت کہ مجھے پاگل کہے ! کھڑا تو رہ۔ (بڑھ کر لاٹھی اٹھا لیتا ہے۔ تینوں پڑوسی ڈر کے مارے پیچھے ہٹ
جاتے ہیں )
دوسرا
پڑوسی : پاگل ؟ ارے باپ رے۔ بچاؤ ۔ داروغہ صاحب ! داروغہ صاحب (پکارتا ہوا دروازے سے
باہر گردن نکالتا ہے ) داروغہ صاحب ! جلدی
آئیے۔ یہاں ایک پاگل ہے۔
( داروند اندر داخل ہوتا ہے )
داروغہ : ( بھاری آواز میں ) یہ کیا بلوا مچا رکھا ہے؟
پہلا پڑوسی : داروغہ
صاحب ! ذرا اس کو دیکھیے ۔ بیٹھے بٹھائے اپنے آپ کو امیر المومنین کہنے لگا ہے۔
تیسرا پڑوسی : صاحب
یہ پاگل ہو گیا ہے۔ اس کو جلدی ہی بند نہیں کیا گیا تو محلے والوں کے لیے سخت خطرہ
ہے۔
داروغہ : (ابوالحسن سے) کیوں ہے ۔ ابھی کل اُس امیر کا حشر دیکھ چکا
ہے۔ اس کے بعد بھی ہوش ٹھکانے نہیں آئے؟
ابو الحسن : ( دانت پیس
کر ) نمک حرام - تری یہ مجال کہ اپنے خلیفہ سے ابے بے کرے ۔ ٹھہر تو سہی ...!
داروغہ : لینا تو
اسے ( تینوں پڑوسی ابوالحسن کو مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں۔ وارونہ
کوڑا نکال کر ابو الحسن کو مارتا ہے۔ اُس کی ماں پھر رونے لگتی ہے )
ماں : خدا
کے لیے اسے نہ مارو۔ یہ پاگل نہیں ہوا ہے۔ اس کو شیطان نے بہکا دیا ہے۔ پرسوں رات
وہ ایک سوداگر کے بھیس میں آیا تھا۔
ابو الحسن : اپنی
چونچ بند رکھ بڑھیا ! آج ہم دربار میں اس داروغہ کو ایسی سزا دیں گے کہ لوگ اس
امیر کی درگت بھول جائیں گے۔
داروغہ : (بھنویں پڑھا کر) آچ ... چھا (ابوالحسن کے ہاتھوں
میں چھڑیاں ڈال کر دروازے کی طرف چلتا ہے )
ماں :
کہاں لیے جا رہے ہو میرے بچے کو ۔ خدا کے واسطے اسے چھوڑ دو۔ اس پر کسی جن کا سایہ
ہو گیا ہے۔
منظر - ۸
مقام : قید
خانه
(ابوالحسن بری حالت میں لوہے کے ایک پنجرے میں بند ہے۔ ابوالحسن کی
ماں داخل ہوتی ہے )
ماں : ( پنجرے کے قریب جا کر
روتی ہوئی ) میرے لعل
۔ میں تجھ پر قربان۔ پندرہ دن سے پنجرے میں بند ہے۔
ابو الحسن : (ماں کے ہاتھ پکڑ کر ) ہائے میری امّاں ۔ (چیخیں مار مار کر روتا ہے ) مجھے یہاں سے نکلو او ٔاماں۔
روز مجھے کوڑے مارتے ہیں۔ مجھے امیر
المومنین کہتے ہیں۔ نہیں اماں۔ میں امیر المومنین نہیں بننا چاہتا۔
ماں : ( خوش ہو کر) پھر تو اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟
ابو الحسن : (آنسو پونچھے کر) میں تمھارا بیٹا ہوں ... ابو الحسن !
ماں :
ہائے... تجھے پہلے یہ بات کیوں نہ سوجھی ؟ ناحق اپنی دُرگت بنوائی اور مجھے بھی
بالکان کیا۔
ابوالحسن : ( اپنا ماتھا رگڑتا ہے
) سمجھ میں نہیں آتا
اماں ۔ وہ سب مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ کنیزیں تھیں، غلام تھے ، در بار لگا تھا۔ کیا
یہ صرف خواب تھا ؟
ماں :
میں تو جانتی ہوں، یہ سب اسی سوداگر کی کارستانی ہے۔ وہ موا شیطان تھا جس نے تجھے
بہکا دیا۔
ابو الحسن : ہاں ہاں،
ضرور یہی بات تھی ! مگر اماں، مجھ کو یہاں سے چھٹکارا دلاؤ نہیں تو میں مر جاؤں
گا۔
ماں : (ابو
الحسن کی بلائیں لیتی ہوئی) اے، خدا نہ کرے، خدا نہ کرے۔
( داروغہ داخل ہوتا ہے )
داروغہ : بڑی بی
جاؤ بس۔ اب کل آنا۔
ماں :
داروغه صاحب ! میرا بیٹا ٹھیک ہو گیا ہے۔ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اب وہ اپنے کو
ابوالحسن کہتا ہے۔ پوچھ کر دیکھ لیجیے۔
داروغہ : (ابو حسن سے) کیوں جناب۔ اب تو آپ کے دماغ کے کیڑے جھڑ گئے؟
ابو الحسن : جی بالکل
۔ بالکل ۔ اور اگر جلدی ہی مجھے چھوڑا نہ گیا تو سر کے بال بھی جھڑ جائیں گے۔
داروغہ : خوب ! کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟
ابو الحسن : جی،
خاکسار کو ابو الحسن کہتے ہیں۔
داروغہ : ( تعجب کے لہجے میں ) بھئی واہ ! اور یہ بڑی بی جو کھڑی ہیں، یہ کون
ہیں؟
ابو الحسن : یہ میری
والدہ محترمہ ہیں جنھوں نے مجھے بچپن سے ...
داروغہ : (بات کاٹ
کر ) بس بس ! تو گویا اب تم بالکل ٹھیک ہو! ( کہتے ہوئے پنجرے کا
قتل کھول دیتا ہے۔ ابو الحسن باہر نکل کر ماں کے گلے
لگ جاتا ہے )
ماں : (
ابوالحسن کو تھپکتے ہوئے ) خدا آپ کو سلامت رکھنے داروغہ صاحب !
داروغہ : مگر دیکھو
ابو الحسن تمھارے سر پر یہ بھوت پھر نہ سوار ہونے پائے ...
(ماں بیٹا چلے جاتے ہیں)
منظر - ۹
مقام :
بغداد کاپُل
(قید
سے چھوٹ کر ابوالحسن پھر پہلے کی طرح روز ایک مہمان کو اپنے گھر لے جا کر اس کی
دعوت کرتا ہے۔ اس وقت بھی وہ پل پر
بیٹھا کسی مسافر کا انتظار کر رہا ہے )
ابو الحسن : (اپنے آپ سے) ارے بھئی کوئی اللہ کا بندہ ادھر بھی آ نکلے ۔
کیا آج کوئی نہیں آئے گا۔ (ہاتھ سے آنکھوں پر چھجا بنا کر داہنی طرف دیکھتا ہے ) او ہو ہو ۔ کوئی آ رہا ہے۔ کہیں باہر ہی کا
معلوم ہوتا ہے۔ (اور ذرا غور سے دیکھتا ہے) پیچھے پیچھے ایک دم چھلا بھی لگا ہوا ہے ... اس کا
غلام ہے شاید . ارور رر...رے باپ... !! ( بوکھلا جاتا ہے) یہ ... یہ تو وہی موصل کا سوداگر ہے !! کم بخت
پھر ادھر آٹپکا !
خدا بچائے اس منحوس سے۔
سوداگر : (قریب آکر ) بھائی ابو الحسن - السلام علیکم ۔ مجھے پہچانا
؟
ابوالحسن : (منہ پھیرے پھیرے) جاؤ میاں، اپنا رستہ ناپو۔ میں تمھیں نہیں
پہچانتا۔
سود اگر : ہائیں !!
اتنی جلدی بھول گئے مجھے تم نے اپنے مکان پر میری دعوت کی تھی۔ واہ ! کیا لذیذ
کھانا کھلایا تھا۔
ابو الحسن : کی ہوگی
دعوت۔ روز ہی کسی نہ کسی کی دعوت کرتا ہوں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ایک ایک
کی صورت بھی یاد رکھتا پھروں۔
سوداگر : یہ بے
مروتی ! آخر تمھیں مجھ سے کیا تکلیف پہنچی کہ اتنے ناراض ہو؟
ابو الحسن : کچھ نہیں،
آپ تو بڑے بھولے بھالے ہیں۔ بس اتنا احسان کرو کہ میرے پاس سے چلے جاؤ۔
سود اگر : ( ابو الحسن کے گلے لگ
کر ) یہ کیوں
کر ہو سکتا ہے؟ میں بھلا تمھارے ایسے دوست کو چھوڑ دوں ؟ مگر آخر ہوا کیا؟ کیوں
مجھ سے اس قدر خفا
ہو !!
ابوالحسن : اب
پوچھتے ہو تو بتائے دیتا ہوں ۔ ہوا یہ کہ میں نے جب تمھاری دعوت کی تھی تو کہہ دیا
تھا کہ باہر کا دروازہ بند کرتے جانا ۔ مگر تم نے
میری بات نہ مانی
....
سوداگر : ہاں یہ
تو سچ ہے ! واقعی مجھے خیال نہیں رہا تھا۔
ابو الحسن : اس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ دروازہ کھلا پا کر شیطان اندر گھس آیا۔ اور اس نے میرے دماغ میں
یہ خیال ڈال دیا کہ میں خلیفہ ہو گیا ہوں۔
سود اگر : ( تعجب سے ) اوہو! تو پھر ؟
ابو الحسن : پھر یہ کہ
میں نے اس خیال میں اپنی ماں کو ڈانٹا۔ خدا مجھے معاف کرے۔ اپنے پڑوسیوں پر لٹھ لے
کر دوڑا۔ انھوں نے مجھے پاگل جان
کر دار ونے کو بلایا اور قید کر وا دیا۔ وہ روز شام کو میری پیٹھ پر کوڑے لگواتا
اور پوچھتا تھا اور کوئی خدمت امیر المومنین ؟ اگر تمھیں یقین نہ آتا ہو تو یہ دیکھو کوڑوں کے
نشان ۔ ( پیٹھ کھول کر خلیفہ کو نشان دکھاتا ہے )
سوداگر : (افسوس کرتے ہوئے) آدا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے دوست پر یہ
مصیبت ٹوٹی ہے۔
ابو الحسن : صرف تمھاری وجہ سے !
سود اگر : اچھا خیر جو ہوا سو ہوا۔ میرا قصور معاف
کردو۔ اس بار تو موصل سے آیا ہی اس لیے ہوں کہ ایک دفعہ اور تمھارے ساتھ کھانے پینے کا لطف اٹھاؤں۔
ابوالحسن : نہیں نہیں، مجھے معاف ہی رکھو۔ اب میں نے قاعدہ
بنا لیا ہے کہ ایک مرتبہ سے زیادہ کسی کو اپنے گھر نہیں لے
جاؤں گا۔
سوداگر : نہیں دوست، مجھے ٹالنے کی کوشش نہ کرو۔
ابو الحسن : )کچھ دیر سوچنے کے بعد ) خیر، اب تمھاری بات کیا ٹالوں ۔ چلو ۔ مگر ایک
وعدہ ابھی سے کرلو۔
سوداگر : وہ کیا؟
ابو الحسن : کہ اب کی بار جاتے وقت باہر کا دروازہ بند کرنا
نہ بھولو گے۔
سود اگر : ٹھیک ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں ۔
منظر - ۱۰
مقام :
خلیفہ کا محل
)خلیفہ محل میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے
پیچھے کافور ابو الحسن کو اپنے کندھے پر لادے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ سب لوگ خلیفہ کو سلام کرتے ہیں۔
خلیفہ سلام کا جواب دے کر مسرور کو آواز دیتے ہیں (
مرور : )آگے بڑھ کر) امیر المومنین !
خلیفه : اس بے چارے کو میری وجہ سے بہت تکلیفیں اُٹھانا
پڑی ہیں۔ آج پھر میں اس سے ملا۔ اس کے گھر جا کر دعوت کھائی اور بے ہوش کر کے اسے اپنے ساتھ اُٹھوالا یا۔ آج بھی
یہ میری جگہ سوئے گا ... اور کل سویرے یہ ابوالحسن نہیں ہوگا۔
مرور : میں سمجھ گیا امیر المومنین۔
خلیفه
: اور اب میں اسے اتنا انعام دوں گا کہ یہ اپنی
تمام پچھلی تکلیفیں بھول جائے گا... اس کو میرا لباس پہنا کر بستر
پر لٹا دو۔
) مسرور حکم کی تعمیل کرتا ہے (
منظر - 11
مقام : محل
میں سونے کا کمرہ
)ابوالحسن خلیفہ کے بستر
پر پڑا اور ہا ہے۔ سب خدمت گار اپنے اپنے سامان کے ساتھ تیار کھڑے ہیں۔ خلیفہ پردے
کے پیچھے سے یہ منظر دیکھ رہے
ہیں۔ مسرور ابو الحسن کو پہلے کی طرح جگاتا ہے (
مسرور : ابوالحسن کے شانے پر ہاتھ رکھ کر) امیر
المومنین !
ابو الحسن : نہیں نہیں ! میں ابو الحسن ہوں۔ میں یہ خواب
دیکھنا نہیں چاہتا۔ (بیٹ کر آنکھیں کھول دیتا ہے ) این ... آنکھیں کھولنے پر بھی ...!! )بے تحا شا بستر پر کھڑا
ہو کر چلاتا ہے ) او
سوداگر کے بچےتونے پھردروازہ کھُلا
چھوڑدیا...!!
مسرور : ( بڑی گھبراہٹ ظاہر
کرتا ہے) امیر
المومنین، امیر المومنین، خیر تو ہے؟
ابو الحسن : کیا بک
رہا ہے ملعون ! میں ابوالحسن ہوں۔
مسرور : امیر المومنین! یہ ابو الحسن کون ہے؟ کل بھی
حضور نے اس کا نام لیا تھا اور اپنے کو امیر المومنین ماننے سے انکار کر دیا تھا؟
پھر بعد میں اس ابو
الحسن کی ماں کو اشرفیاں بھجوائی تھیں۔
ابو الحسن : (حیرت سے آنکھیں پھاڑ
کر) کل ...
یہ کل کی بات ہے؟ اس بھیا نک خواب کو دو مہینے ہور ہے ہیں۔
مسرور : معلوم
ہوتا ہے امیر المومنین نے پھر کوئی خواب دیکھا ہے اور خواب میں پھر وہی مردود ابو
الحسن !
ابو الحسن : (غصّے میں تیوریاں چڑھا
)کر کیا کہا ؟ میں
مردود ہوں؟
مسرور : دونوں
ہاتھوں سے اپنے کان پکڑ کر) تو بہ تو بہ ! میری یہ مجال ! میں تو ابوالحسن کی بات
کر رہا تھا اس لیے کہ کل بھی سویرے اُٹھ کر حضور
نے اس کا نام لیا تھا اور آج بھی
....
ابو الحسن : اُف ! ( دونوں ہاتھوں سے سر
پکڑ لیتا ہے )کل اور
آج ! کل اور آج !! میں کہتا ہوں بیچ میں سے وہ دن کہاں غائب ہو گئے جب میں طوطے کی طرح پنجرے میں
بند تھا اور پیٹھ پر کوڑے کھا کر بھینسے کی طرح ڈکراتا تھا؟
مسرور : خدا ایسا
خواب امیر المومنین کو پھر نہ دکھائے !
ابو الحسن : خواب ؟
ارے میری پیٹھ پر کوڑوں کے نشان ابھی تک موجود ہیں۔ لے تو خود دیکھ لے ( پیٹھ پر سے لباس
ہٹاتا ہے )
مسرور : ( جھک کر اس کی پیٹھ
دیکھتا ہے) کہیں بھی
نہیں حضور، آپ کی پیٹھ تو آئینے کی طرح صاف ہے۔
ابو الحسن : ایں !
آئینے کی طرح ! (چلّاتاہے )خدا مجھے شیطان سے بچائے ! پھر وہ ساری مصیبتیں جو مجھ پر گزریں ؟ کیا وہ
خواب تھا ! ( خوش ہو کر ) ہاں یہی ٹھیک ہے۔ (آواز کو رعب دار بناتے
ہوئے ) تو ہم
امیر المومنین ہیں۔
داروغہ : (پردے کے پیچھے سے) امیر المومنین ! اب آپ کا یہ غلام آپ کی خدمت
کے لیے تیار ہے، بسم اللہ ! ( کوڑا چلنے کی آواز آتی ہے)
ابو الحسن : ( سہم کر) نہیں ، میں امیر المومنین نہیں ہوں (مسرور سے ) تم نے یہ آواز سنی؟
مسرور : خواب میں
سنی ہوئی آواز میں ابھی تک حضور کے کان میں گونج رہی ہیں۔
ابوالحسن : آہ ! ( لیٹ جاتا ہے) سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے خواب سمجھوں یا اسے ...( اٹھ کر کنیز کو آواز
دیتا ہے ) کنیز !
لے بھلا میری انگلی میں
کاٹ تو سہی ، خوب زور سے ! ( اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے )
کنیز :
میری ہمت نہیں پڑتی ، امیر المومنین ۔
ابو الحسن : بس یہ
آخری امتحان ہے۔ اگر تکلیف سے میری آنکھ کھل گئی تو ابوالحسن در نہ امیر المومنین
۔
کنیز : ( پردے کی طرف دیکھتی
ہے۔ خلیفہ پردے کے پیچھے سے اسے اشارہ کرتے ہیں ) میری خطا معاف فرمائیں، امیر المومنین ۔
(ابوالحسن کی اُنگلی میں کاٹتی ہے)
ابو الحسن : ( بلبلا کر بستر پر سے
کود پڑتا ہے ) ہائے مار
ڈالا ؟
(خلیفہ ابو الحسن کو ناچتا دیکھ کر ہنستے ہوئے پردے سے باہر نکل
آتے ہیں )
خلیفہ : (ہنسی روکنے کی کوشش
کرتے ہوئے) ابو
الحسن خدا کے لیے بس کر ۔ کیا ہنساتے ہنساتے مار ہی ڈالے گا ؟ ( ابوالحسن چونک کر
خلیفہ کو گھورنے لگتا ہے
)
ابو الحسن : (پہچان کر) مو...صل کا سوداگر !
خلیفہ : (مسکراتے ہوئے) نہیں !
ابوالحسن : پھر....
؟
مسرور : امیر
المومنین ہارون رشید
ابوالحسن : کیا ؟ ( دیر تک حیران کھڑا
رہتا ہے پھر ایک دم جھک کر سلام کرتے ہوئے) مگر غلام کی سمجھ میں نہیں آیا کہ حضور نے میرے
ساتھ کیوں یہ مذاق
فرمایا۔
خلیفہ : اس لیے کہ اس امیر اور اس کے ساتھیوں کو تمھارے
ہی ہاتھوں سزا دلوا دوں۔ میں سمجھا تھا کہ اپنے گھر میں آنکھ کھلنے پر تم اس واقعے کو خواب سمجھ کر
بھول بھال جاؤ گے۔
ابو الحسن : سبحان اللہ ! تو گویا اس معاملے میں ساری خطا
میری ہی تھی... ؟ خیر ، مگر اب میری ایک درخواست ہے۔
خلیفہ : وہ کیا؟
ابو الحسن : کہ مجھے
کبھی کبھی حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا رہے۔
خلیفہ : جعفر ! آج سے ہم نے ابو الحسن کو اپنا خاص
مصاحب مقرر کیا۔ اس کو ایک مکان دیا جائے ، ماہانہ تنخواہ مقرر کی جائے اور اب تک جتنے کوڑے اس نے کھائے
ہیں، اتنی ہی اشرفیاں اسے انعام میں دی جائیں۔
ابو الحسن : (
جھک کر سلام کرتا ہے) خدا امیر المومنین کو ہزاروں برس سلامت رکھے۔ مگر کہیں یہ بھی حضور کا مذاق
تو نہیں؟
خلیفہ : (ہنستےہوئے )نہیں ...وہ خلیفہ کا مذاق تھا اور یہ خلیفہ کا
حکم ہے۔
ابو الحسن : ڈر رہا
ہوں کہ کہیں ابھی تک خواب ہی نہ دیکھ رہا ہوں ۔
کنیز : یقین
نہ آتا ہو تو لاؤ ایک مرتبہ پھر تمھاری اُنگلی میں کاٹ کھاؤں؟
خلیفہ : (ہنسنےلگتے ہیں ) ہاں ہاں، یہ ٹھیک ہے۔
ابو الحسن : (گھبرا
کر پیچھے بٹ جاتا ہے ) نہیں بابا ! مجھے بالکل یقین آگیا۔
( سب بننے لگتے ہیں۔ پردہ کرتا ہے )
0 Comments