Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Sair Teesre Darwesh ki-Bagh wo Bahar By meer Aman Dahelvi| میر امن دہلوی سیر تیسرے درویش کی : باغ و بہار

 

سیر تیسرے درویش کی : باغ و بہار
میرامؔن دہلوی
Sair Teesre Darwesh ki-Bagh wo Bahar
Meer Aman Dahelvi

دیا گیا اقتباس سیر تیسرے درویش کی ، داستان باغ و بہار  (میر امن دہلوی) سے ماخوذ ہے۔ یہ اقتباس ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد کے سال اول اردو ،زبان دوّم میقات دوّم، بی اے، بی۔ایس سی، بی کام  کے نصاب میں شامل ہے۔

سیر تیسرے درویش کی : باغ و بہار

تیسرا درویش کُوٹ باندھ بیٹھا اور اپنی سیر کا بیان اس طرح سے کرنے لگا۔

احوال اس فقیر کا اے دوستاں سنو!

یعنی جو مجھ پہ بیتی ہے وہ داستاں سنو!

جو کچھ کہ شاہ عشق نے مجھ سے کیا سلوک

تفصیل وار کرتا ہوں اس کا بیاں ، سنو !

 کہ یہ کم ترین بادشاہ زادہ عجم کا ہے۔ میرے ولی نعمت وہاں کے بادشاہ تھے اور سواے میرے کوئی فرزند نہ رکھتے تھے ۔ میں جوانی کے عالم میں مصاحبوں کے ساتھ چوڑ، گنجفہ ، شطرنج، تختہ  نردکھیلا کرتا یا سوار ہو کر سیر وشکار میں مشغول رہتا۔ ایک دن کا یہ ماجرا ہے کہ سواری تیار کروا کر اور سب یار آشناؤں کو لے کر میدان کی طرف نکلا۔ باز، بہری، جُرّہ ، باشا؛ سُر خاب اور تیتروں پر اڑاتا ہوا دور نکل گیا۔ عجب طرح کا ایک قطعہ بہار کا نظر آیا کہ جیدھر نگاہ جاتی تھی ، کوسوں تلک سبز اور پھولوں سے لعل زمین نظر آتی تھی۔ یہ سماں دیکھ کر گھوڑوں کی باگیں ڈال دیاں اور قدم قدم سیر کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ ناگاہ اس صحرا میں دیکھا کہ ایک کالا ہرن، اس پر زر بَفْت کی جھول اور بھنور کلی مرصع کی اور گھونگر وسونے کے زردوزی پٹے میں ٹکے ہوئے گلے میں پڑے، خاطر جمع سے اس میدان میں (کہ جہاں انسان کا دخل نہیں اور پرندہ پر نہیں مارتا ) چرتا پھرتا ہے۔ ہمارے گھوڑوں کے سم کی آہٹ پا کر چوکنا ہوا اور سراٹھا کر دیکھا اور آہستہ آہستہ چلا۔

 

مجھے اس کے دیکھنے سے یہ شوق ہوا کہ رفیقوں سے کہا کہ تم یہیں کھڑے رہو، میں اسےجیتا پکڑوں گا ۔ خبردار! تم قدم آگے نہ بڑھا ئیو اور میرے پیچھے نہ آئیو ۔ اور گھوڑا میری رانوں تلے ایسا پرند تھا کہ بار ہا ہرنوں کے اوپر دوڑا کر ان کی کر چھالوں کو بھلا کر ہاتھوں سے پکڑ پکڑ لیے تھے؛ اس کے عقب دوڑایا۔ وہ دیکھ کر چھلانگیں بھرنے لگا اور ہوا ہوا۔ اور گھوڑا بھی باد سے باتیں کرتا تھا لیکن اس کی گرد کو نہ پہنچا۔ وہ ر ہوار بھی پسینے پسینے  ہو گیا اور میری بھی جیبھ  مارے پیاس کے چٹخنے لگی۔ پر کچھ بس نہ چلا۔ شام ہونے لگی اور میں کیا جانوں کہاں سے کہاں نکل آیا ؟ لا چار ہو کر اسے بھلا وا دیا۔ اور تکش میں سے تیر نکال کر اور قربان سے کمان سنبھال کر چلِےّ میں جوڑ کر کشش کان تلک لا کر ران کو اس کی تاک، اللہ اکبر کہہ کر مارا۔ بارے پہلا ہی تیر اس کے پانو میں تراز و ہوا۔ تب لنگڑاتا ہوا پہاڑ کے دامن کی سمت چلا۔ فقیر بھی گھوڑے پر سے اتر پڑا اور پا پیادہ اس کے پیچھے لگا۔ اس نے کوہ کا ارادہ کیا اور میں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ کئی اتار چڑھاو کے بعد ایک گنبد نظر آیا۔ جب پاس پہنچا، ایک باغچہ اور ایک چشمہ دیکھا۔ وہ ہرن تو نظروں سے چھلاوا ہو گیا۔ میں نہایت تھکا تھا، ہاتھ پانو دھونے لگا۔

 

ایک بارگی آواز رونے کی اس بُرج کے اندر سے میرے کان میں آئی ، جیسے کوئی کہتا ہے کہ اے بچے! جس نے تجھے تیر مارا، میری آہ کا تیر اس کے کلیجے میں لگیو! وہ اپنی جوانی سے پھل نہ پاوے اور خدا اس کو میرا سا دکھیا بناوے! میں یہ سن کر وہاں گیا۔ دیکھا تو ایک بزرگ ریش سفید اچھی پوشاک پہنے ایک مسند پر بیٹھا ہے اور ہرن آگے لیٹا ہے؛ اس کی جانگ سے یہ تیر کھینچتا ہے اور بددعا دیتا ہے۔ میں نے سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا حضرت سلامت ! بی تقصیر نا دانستہ اس غلام سے ہوئی ، میں یہ نہ جانتا تھا، خدا کے واسطے معاف کرو۔ بولا کہ بے زبان کو تو نے ستایا ہے، اگران جان یہ حرکت تجھ سے ہوئی ، اللہ معاف کرے گا۔ میں پاس جا بیٹھا اور تیر نکالنے میں شریک ہوا۔ بڑی دقت سے تیر کو نکالا اور زخم میں مرہم بھر کر چھوڑ دیا۔ پھر ہاتھ دھو دھا کر اس پیر مرد نے کچھ حاضری جو اس وقت موجود تھی ، مجھے کھلائی ۔ میں نے کھا پی کر ایک چار پائی پر لنبی تانی۔

 

ماندگی کے سبب خوب پیٹ بھر کر سویا۔ اس نیند میں آواز نوحہ وزاری کی کان میں آئی۔ آنکھیں مل کر جو دیکھتا ہوں تو اس مکان میں نہ وہ بوڑھا ہے نہ کوئی اور ہے، اکیلا میں پلنگ پر لیٹا ہوں اور وہ دالان خالی پڑا ہے۔چاروں طرف بھیانک ہو کر دیکھنے لگا۔ ایک کونے میں پردہ پڑا نظر آیا۔ وہاں جا کر اسے اٹھایا۔ دیکھا تو ایک تخت بچھا ہے اور اس پر ایک پری زاد عورت ، برس چودہ ایک کی ، مہتاب کی کسی صورت اور زلفیں دونوں طرف چھوٹیں ہوئیں ، ہنستا چہرہ، فرنگی لباس پہنے ہوئے عجب ادا سے دیکھتی ہے اور بیٹھی ہے اور وہ بزرگ اپنا سر اس کے پانو پر دھرے بے اختیار رورہا ہے اور ہوش حواس کھو رہا ہے۔ میں اس پیر مرد کا یہ احوال اور اس نازنین کا حسن و جمال دیکھ کر مرجھا گیا اور مردے کی طرح بے جان ہو کر گر پڑا۔ وہ مرد بزرگ یہ میرا حال دیکھ کر شیشہ گلاب کا لے آیا اور مجھ پر چھڑ کنے لگا۔ جب میں جیتا اٹھ کر اس معشوق کے مقابل جا کر سلام کیا ؛ اس نے ہرگز نہ ہاتھ اٹھایا اور نہ ہونٹھ ہلایا۔ میں نے کہا: اے گل بدن ! اتنا غر ور کرنا اور جواب ا سلام کا نہ دینا کس مذہب میں درست ہے؟

کم بولنا ادا ہے ہر چند ، پرنہ اتنا

مند جائے چشم عاشق تو بھی وہ منہ نہ کھولے

 

واسطے اس خدا کے جس نے تجھے بنایا ہے، کچھ تو منہ سے بول ۔ ہم بھی اتفاقاًً یہاں آنکلے ہیں، مہمان کی خاطر ضرور ہے۔ میں نے بہتیری باتیں بنائیں لیکن کچھ کام نہ آئیں ۔ وہ چپکی بُت کی طرح بیٹھی سنا کی ۔ تب میں نے بھی آگے بڑھ کر ہاتھ پانو پر چلایا۔ جب پانو کو چھیڑا تو سخت معلوم ہوا۔ آخر یہ دریافت کیا کہ پتھر سے اس لعل کو تراشا ہے اور آزر نے اس بت کو بنایا ہے۔ تب اس پیر مردِ بُت پرست سے پوچھا کہ میں نے تیرے ہرن کی ٹانگ میں کھپر امارا ، تو نے اس عشق کی ناوک سے میرا کلیجا چھید کروار پار کیا۔ تیری دعا قبول ہوئی۔ اب اس کی کیفیت مفصل بیان کر کہ یہ طلسم کیوں بنایا ہے اور تو نے بستی کو چھوڑ کر جنگل میں پہاڑ کیوں سیتا ہے؟ تجھ پر جو کچھ بیتا ہے، مجھ سے کہہ۔جب اس کا بہت پیچھا لیا، تب اس نے جواب دیا کہ اس بات نے مجھے تو خراب کیا ، کیا تو بھی سن کر ہلاک ہوا چاہتا ہے؟ میں نے کہا: لو اب بہت مگر چکر کیا، مطلب کی بات کہو، نہیں تو مارڈالوں گا۔ مجھے نہایت در پے دیکھ کر بولا: اے جو ان !حق تعالی ہر ایک انسان کو عشق کی آنچ سے محفوظ رکھے۔ دیکھ تو اس عشق نے کیا کیا آفتیں برپا کی ہیں !عشق ہی کے مارے عورت ، خاوند کے ساتھ ستی ہوتی ہے اور اپنی جان کھوتی ہے۔ اور فرہاد و مجنوں کا قصہ سب کو معلوم ہے ۔ تو اس کے سننے سے کیا پھل پاوے گا ؟ ناحق گھر بار، دولت دنیا چھوڑ چھاڑ کر نکل جاوے گا۔ میں نے جواب دیا: بس اپنی دوستی نہ کر رکھو، اس وقت مجھے اپنا دشمن سمجھو۔ اگر جان عزیز ہے تو صاف کہو۔ لاچار ہو کر آنسو بھر لایا اور کہنے لگا کہ مجھ خانہ خراب کی یہ حقیقت ہے کہ بندے کا نام نعمان سیاح ہے۔ میں بڑا سودا گر تھا۔ اس سن میں تجارت کے سبب ہفت اقلیم کی سیر کی اور سب بادشاہوں کی خدمت میں رسائی ہوئی۔

 

ایک بار یہ خیال جی میں آیا کہ چاروں دانگ ملک تو پھر ا لیکن جزیرۂ فرنگ کی طرف نہ گیا اور وہاں کے بادشاہ کو اور رعیت و سپاہ کو نہ دیکھا اور رسم و راہ وہاں کی کچھ نہ دریافت ہوئی ؛ ایک دفعہ وہاں بھی چلا چاہیے۔ رفیقوں اور شفیقوں سے صلاح لے کر ارادہ مصمم کیا اور تحفہ، ہدایا جہاں تہاں کا ، جو وہاں کے لائق تھا ، لیا اور ایک قافلہ سوداگروں کا اکٹھا کر کر جہاز پر سوار ہوکر روانہ ہوا۔ ہوا جو موافق پائی، کئی مہینوں میں اس ملک میں جا داخل ہوا۔ شہر میں ڈیرا کیا۔ عجب شہر دیکھا کہ کوئی شہر اس شہر کی خوبی کو نہیں پہنچتا۔ ہر ایک بازار وکوچے میں پختہ سڑکیں بنی ہوئیں اور چھڑ کا و کیا ہوا۔ صفائی ایسی کہ ایک تنکا کہیں پڑا نظر نہ آیا، کوڑے کا تو کیا ذکر ہے۔ اور عمارتیں رنگ بہ  رنگ کی ۔ اور رات کو رستوں میں دورستہ قدم بہ قدم روشنی ۔ اور شہر کے باہر باغات کہ جن میں عجائب گل بونٹے اور میوے نظر آئے کہ شاید سوائے بہشت کے کہیں اور نہ ہوں گے۔ جو وہاں کی تعریف کروں سو بجا ہے۔

 

غرض سوداگروں کے آنے کا چرچا ہوا۔ ایک خواجہ سرا معتبر سوار ہوکر اور کئی خدمت گار ساتھ لے کر قافلے میں آیا اور بیوپاریوں سے پوچھا کہ تمہارا سردار کون سا ہے؟ سبھوں نے میری طرف اشارت کی ۔ وہ محلی میرے مکان میں آیا۔ میں تعظیم بجالایا۔ با ہم سلام علیک ہوئی۔ اس کو سوزنی پر بٹھایا، تکیے کی تواضع کی۔ بعد اس کے میں نے پوچھا کہ صاحب کے تشریف لانے کا کیا باعث ہے؟ فرمائیے ۔ جواب دیا کہ شہزادی نے سنا ہے کہ سوداگر آئے ہیں اور بہت جنس لائے ہیں لہذ ا مجھ کو کم کیا کہ جا کر ان کو حضور میں لے آؤ۔ پس تم جو کچھ اسباب لائق بادشاہوں کی سرکار کے ہو ، ساتھ لے کر چلو اور سعادت آستانہ بوسی کی حاصل کرو۔

 

 میں نے جواب دیا کہ آج تو ماندگی کے باعث قاصر ہوں ، کل جان ومال سے حاضر ہوں ۔ جو کچھ اس عاجز کے پاس موجود ہے، نذر گز رانوں گا۔ جو پسند آ وے، مال سرکار کا ہے۔ یہ وعدہ کر کر اور عطر پان دے کر خواجہ کو رخصت کیا اور سب سوداگروں کو اپنے پاس بلا کر جو جو تحفہ جس کے پاس تھا، لے لے کر جمع کیا اور جو میرے گھر میں تھا، وہ بھی لیا اور صبح کے وقت دروازے پر بادشاہی محل کے حاضر ہوا۔ باری داروں نے میری خبر عرض کی ۔ حکم ہوا کہ حضور میں لاؤ۔ وہی خواجہ سرا نکلا اور میرا ہاتھ ہاتھ میں لے کر دوستی کی راہ سے باتیں کرتا ہوالے چلا۔ پہلے خواص پرے سے ہوکر ایک مکان عالی شان میں لے گیا۔ اے عزیز! تو باور نہ کرے گا! یہ عالم نظر آیا گویا پر کاٹ کر پر یوں کو چھوڑ دیا ہے۔ جس طرف دیکھتا تھا نگاہ گڑ جاتی تھی۔ پانو زمین سے اکھڑے جاتے تھے ۔ بہ زور اپنے تئیں سنبھالتا ہوا رو برو پہنچا۔ جو نہیں بادشاہ زادی پر نظر پڑی ،غش کی نوبت ہوئی اور ہاتھ میں پانو میں رعشہ ہو گیا۔

 

بہر صورت سلام کیا۔ دونوں طرف دست راست اور دست چپ ،صف  بہ  صف نازنینان پری چہرہ دست بستہ کھڑی تھیں۔ میں جو کچھ قسم جواہر اور پار چہ پو شا کی اور تحفہ اپنے ساتھ لے گیا تھا، جب کئی کشتیاں حضور میں چنیں گئیں؛ از بس کہ سب جنس لائق پسند کے تھی ، خوش ہو کر  خانساماں کے حوالے ہوئی اور فرمایا کہ قیمت اس کی بہ موجب فرد کے کل دی جائے گی۔ میں تسلیمات بجالایا اور دل میں خوش ہوا کہ اس بہانے سے بھلا کل بھی آنا ہوگا۔ جب رخصت ہو کر با ہر آیا تو سودائی کی طرح کہتا کچھ تھا اور منہ سے کچھ نکلتا تھا۔ اسی طرح سرا میں آیا لیکن حواس بجانہ تھے ۔ سب آشناد وست پوچھنے لگے کہ تمہاری کیا حالت ہے؟ میں نے کہا: اتنی آمد ورفت سے گرمی دماغ میں چڑھ گئی ہے۔

 

غرض وہ رات تلپھتے   کا ٹی۔ فجر کو پھر جا کر حاضر ہوا اور اسی خواجہ کے ساتھ پھرمحل میں پہنچا۔ وہی عالم جو کل دیکھا تھا، دیکھا۔ بادشاہ زادی نے مجھے دیکھا اور ہر ایک کو اپنے اپنے کام پر رخصت کیا۔ جب پر چھا ہوا، خلوت میں اٹھ گئیں اور مجھے طلب کیا۔ جب میں وہاں گیا، بیٹھنے کا حکم کیا۔ میں آداب بجالا کر بیٹھا۔ فرمایا کہ یہاں جو تو آیا اور یہ اسباب لایا، اس میں منافع کتنا منظور ہے؟ میں نے عرض کی کہ آپ کے قدم دیکھنے کی بڑی خواہش تھی ، سوخدا نے میسر کی ۔ اب میں نے سب کچھ بھر پایا اور دونوں جہان کی سعادت حاصل ہوئی۔ اور قیمت جو کچھ فہرست میں ہے ، نصف کی خرید ہے اور نصف نفع ہے۔ فرمایا :نہیں، جو قیمت تو نے لکھی ہے وہ عنایت ہوگی بلکہ اور بھی انعام دیا جائے گا۔ بہ شرطیکہ ایک کام تجھ سے ہو سکے تو حکم کروں ۔

 

میں نے کہا کہ غلام کا جان و مال اگر سرکار کے کام آوے تو میں اپنے طالعوں کی خوبی سمجھوں اور آنکھوں سے کروں۔ یہ سن کر قلم دان یا  د فر مایا۔ ایک شُقہ لکھا اور موتیوں کے دُلمیان میں رکھ کر، ایک رومال شبنم کا اوپر لپیٹ کر میرے حوالے کیا اور ایک انگوٹھی نشان کے واسطے انگلی سے اتار دی اور کہا کہ اس طرف کو ایک بڑا باغ ہے، دل کُشا  اس کا نام ہے، وہاں تو جا کر، ایک شخص کخیسر و نام دارو غہ ہے، اس کے ہاتھ میں یہ انگشتری دیجو  اور ہماری طرف سے دعا کہیو  اور اس رقعے کا جواب مانگیو۔ لیکن جلد آئیو ۔ اگر کھانا وہاں کھا ئیو تو پانی یہاں پیجو ۔ اس کام کا انعام تجھے ایسا دوں گی کہ تو دیکھے گا۔ میں رخصت ہوا اور پوچھتا پوچھتا چلا۔ قریب دوکوس کے جب گیا، وہ باغ نظر پڑا۔ جب پاس پہنچا، ایک عزیز مسلح مجھ کو پکڑ کے دروازے میں باغ کے  لے گیا ۔ دیکھوں تو ایک جوان شیر کی سی صورت،سونے کی کرسی پر زرہ داؤدی پہنے، چار آئینہ باندھے، فولادی خود سر پر دھرے، نہایت شان و شوکت سے بیٹھا ہے اور پان سے جوان تیار، ڈھال تلوار ہاتھ میں لیے اور ترکش کمان باندھے،مستعد پراباندھے کھڑے ہیں۔

 

 میں نے سلام کیا۔ مجھے نزدیک بلایا۔ میں نے وہ خاتم دی اور خوشامد کی باتیں کر کروہ رومال دکھایا اور شقےّّ کے بھی لانے کا احوال کہا۔ اس نے سنتے ہی انگلی دانتوں سے کاٹی اور سر دُھن کر بولا کہ شاید تیری اجل تجھ کو لے آئی ہے۔ خیر باغ کے اندر جا۔ سرو کے درخت میں ایک اہنی پنجرہ لٹکتا ہے۔ اس میں ایک جوان قید ہے۔ اس کو یہ خط دے کر ، جواب لے جلدی پھر آ۔ میں شِتاب باغ میں گھسا۔ باغ کیا تھا، گویا جیتے جی بہشت میں گیا۔ ایک ایک چمن رنگ بہ رنگ کا پھول رہا تھا اور فوارے چھوٹ رہے تھے ، جانور چہچہے  مار رہے تھے۔ میں سیدھا چلا گیا اور اس درخت میں وہ قفس دیکھا۔ اس میں ایک جوانِ حسین نظر آیا۔ میں نے ادب سے سر نہوڑ ایا اور سلام کیا اور وہ خریطۂ سر بہ مہر پنجرے کی تیلیوں کی راہ سے دیا۔ وہ عزیز رقعہ کھول کر پڑھنے لگا اور مجھ سے مشتاق وارا حوال ملکہ کا پوچھنے لگا۔

 

ابھی باتیں تمام نہ ہوئیں تھیں کہ ایک فوج زنگیوں کی نمود ہوئی اور چاروں طرف سے مجھے پر آٹوٹی اور بے تحاشیٰ برچھی  و تلوار مارنے لگی ۔ ایک آدمی نہتھے کی بساط کیا، ایک دم میں چور زخمی کر دیا۔ مجھے کچھ اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔ پھر جو ہوش آیا، اپنے تئیں چار پائی پر پایا کہ دو پیادے اٹھائے لیے جاتے ہیں اور آپس میں بتیا تے ہیں۔ ایک نے کہا: اس مردے کی لوتھ کو میدان میں پھینک دو، کتے کوّے کھا جائیں گے۔ دوسرا بولا: اگر بادشاہ تحقیق کرے اور یہ خبر پہنچے تو جیتا گڑوادے اور بال بچوں کو کولھو میں پڑوادے۔ کیا ہمیں اپنی جان بھاری پڑی ہے جوایسی نا معقول حرکت کریں۔

 

میں نے یہ گفتگو سن کر دونوں یا جوج ماجوج سے کہا کہ واسطے خدا کے مجھ پر رحم کرو، ابھی مجھ میں ایک رمق جان باقی ہے۔ جب مر جاؤں گا، جو تمہارا جی چاہے گا سو کیجو ۔ مردہ بہ دست زندہ ، لیکن یہ تو کہو کہ مجھ پر یہ کیا حقیقت بیتی ، مجھے کیوں مارا، اور تم کون ہو؟ بھلا اتنا تو کہہ سناؤ۔ تب انہوں نے رحم کھا کر کہا کہ وہ جوان جو قفس میں بند ہے، اس بادشاہ کا بھتیجا ہے اور پہلے اس کا باپ تخت نشیں تھا۔ رِحْلت کے وقت یہ وصیت اپنے بھائی کو کی کہ ابھی میرا بیٹا جو وارث اس سلطنت کا ہے، لڑکا اور بے شعور ہے؛ کار بار بادشاہت کا خیر خواہی اور ہوشیاری سے تم کیا کیجو ۔ جب یہ بالغ ہو، اپنی بیٹی سے شادی اس کی کرد یجواور مختا ر  تمام ملک اور خزانے کا کیجو ۔

 

 یہ کہہ کر انہوں نے وفات پائی اور سلطنت کی نوبت چھوٹے بھائی پر آئی۔ اس نے وصیت پر عمل نہ کیا بلکہ دیوانہ اور سودائی مشہور کر کے پنجرے میں ڈال دیا۔ اور چوکی گاڑھی چاروں طرف باغ کے رکھی ہے کہ پرندہ پر نہیں مار سکتا اور کئی مرتبہ زہر ہلاہل دیا ہے، لیکن زندگی زبردست ہے، اثر نہیں کیا ۔ اب وہ شہزادی اور یہ شہزادہ دونوں عاشق معشوق بن رہے ہیں۔ وہ گھر میں تلپھے ہے اور یہ قفس میں تڑپھے ہے۔ تیرے ہاتھ شوق کا نامہ اس نے بھیجا؛ یہ خبر ہر کاروں نے بہ جنس بادشاہ کو پہنچائی۔ حبشیوں کا دستہ متعین ہوا۔ تیرا یہ احوال کیا اور اس جوان قیدی کے قتل کی وزیر سے تدبیر پوچھی ۔ اس نمک حرام نے ملکہ کو راضی کیا ہے کہ اس بے گناہ کو بادشاہ کے حضور اپنے ہاتھ سے مارڈالے۔

 

میں نے کہا: چلو مرتے مرتے یہ بھی تماشا دیکھ لیں ۔ آخر راضی ہو کر وہ دونوں اور میں زخمی ، چپکے ایک گوشے میں جا کر کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو تخت پر بادشاہ بیٹھا ہے اور ملکہ کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے اور شہزادے کو پنجرے سے باہر نکال کر روبرو کھڑا کیا۔ ملکہ جلاد بن کر ، شمشیر برہنہ لیے ہوئے ، اپنے عاشق کے قتل کرنے کو آئی۔ جب نزدیک پہنچی، تلوار پھینک دی اور گلے میں چمٹ گئی ۔ تب وہ عاشق بولا کہ ایسے مرنے پر میں راضی ہوں ۔ یہاں بھی تیری آرزو ہے، وہاں بھی تیری تمنا رہے گی۔ ملکہ بولی کہ اس بہانے سے میں تیرے دیکھنے کو آئی تھی ۔ بادشاہ یہ حرکت دیکھ کر سخت برہم ہوا اور وزیر کو ڈانٹا کہ تو یہ تماشا مجھے دکھلانے کو لایا تھا؟ محلی ملکہ کو جدا کر کے محل میں لے گئے اور وزیر نے خفا ہو کر تلوار اٹھائی اور بادشاہ زادے کے اوپر دوڑا کہ ایک ہی وار میں کام اس بچارے کا تمام کرے۔ جوں چاہتا ہے کہ تیغا چلا وے، غیب سے ایک تیر نا گہانی اس کی پیشانی پر بیٹھا کہ دوسار ہو گیا اور وہ گر پڑا۔

 

بادشاہ یہ واردات دیکھ کر محل میں گھس گئے ۔ جو ان کو پھر قفس میں بند کر کر باغ میں لے گئے۔ میں بھی وہاں سے نکلا۔ راہ میں سے ایک آدمی مجھے بلا کر ملکہ کے حضور میں لے گیا۔ مجھے گھائل دیکھ کر ، ایک جراح کو بلوایا اور نہایت تقید سے فرمایا کہ اس جوان کو جلد چنگا کر کے غسل شفا کا دے، یہی تیرا مجرا ہے۔ اس کے اوپر جتنی محنت تو کرے گا، ویسا ہی انعام اور سرفرازی پاوے گا۔ غرض وہ جراح بہ موجب ارشاد ملکہ کے ، تگ و دو کر کے ایک چلے میں نہلا دھلا ، مجھے حضور میں لے گیا۔ ملکہ نے پوچھا کہ اب تو کچھ کسر باقی نہیں رہی؟ میں نے کہا کہ آپ کی توجہ سے اب ہٹّا کٹّا  ہوں ۔ تب ملکہ نے ایک خلعت اور بہت سے روپے جو فرمائے تھے ، بلکہ اس سے بھی دو چند عطا کیے اور رخصت کیا۔

 

 میں نے وہاں سے سب رفیق اور نوکر چاکروں کو لے کر کوچ کیا۔ جب اس مقام پر پہنچا ، سب کو کہا: تم اپنے وطن کو جاؤ اور میں نے اس پہاڑ پر یہ مکان اور اس کی صورت بنا کر، اپنا رہنا مقرر کیا اور نوکروں اور غلاموں کو موافق ہر ایک کی قدر کے روپے دے کر آزاد کیا۔ اور یہ کہہ دیا کہ جب تلک میں جیتا  ر ہوں، میرے قوت کی خبر گیری تمہیں ضرور ہے، آگے مختار ہو ۔ اب وہی اپنی نمک حلالی سے میرے کھانے کی خبر لیتے ہیں اور میں بہ خاطر جمع اس بت کی پرستش کرتا ہوں۔ جب تلک جیتا ہوں ، میرا یہی کام ہے۔ یہ میری سرگذشت ہے جو تو نے سنی ۔

 

یا فقرا! میں نے یہ مجرد سننے اس قصے کے۔ کفنی گلے میں ڈالی اور فقیروں کا لباس کیا اور اشتیاق میں فرنگ کے ملک کے دیکھنے کے، روانہ ہوا۔ کتنے ایک عرصے میں جنگل پہاڑوں کی سیر کرتا ہوا مجنوں اور فرہاد کی صورت بن گیا۔

 

آخر میرے شوق نے اس شہر تلک پہنچایا۔ گلی کوچے میں باولا سا پھرنے لگا۔ اکثر ملکہ کے محل کے آس پاس رہا کرتا ،لیکن کوئی ڈھب ایسا نہ ہوتا جو وہاں تلک رسائی ہو۔ عجب حیرانی تھی کہ جس واسطے یہ محنت کشی کر کر گیا، وہ مطلب ہاتھ نہ آیا۔ ایک دن بازار میں کھڑا تھا کہ ایک بارگی آدمی بھاگنے لگے اور دکاندار دکانیں بند کر کے چلے گئے ۔ یا وہ رونق تھی یا سنسان ہو گیا۔ ایک طرف سے ایک جوان رستم کا ساکلہ جبڑا ، شیر کی مانند گونجتا اور تلوار دوستی جھاڑتا ہوا، زرہ بکتر گلے میں اور ٹوپ جھلم کا سر پر اور طمنچے  کی جوڑی کمر میں ، کیفی کی طرح بکتا جھکتا نظر آیا اور اس کے پیچھے دو غلام بنات کی پوشاک پہنے، ایک تابوت مخمل کا شانی سے مڑھا ہوا سر پر لیے چلے آتے ہیں۔

 

 میں نے یہ تماشا دیکھ کر ساتھ چلنے کا مقصد کیا۔ جو کوئی آدمی میری نظر پڑتا، مجھے منع کرتا۔ لیکن میں کب سنتا ہوں۔ رفتہ رفتہ وہ جواں مرد ایک عالی شان مکان میں چلا، میں بھی ساتھ ہوا۔ اس نے پھرتے ہی چاہا کہ ایک ہاتھ مارے اور مجھے دوٹکڑے کرے ؛میں نے اسے قسم دی کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں، میں نے اپنا خون معاف کیا ؛کسو طرح مجھے اس زندگی کے عذاب سے چھڑا دے کہ نہایت بہ تنگ آیا ہوں۔ میں جان بوجھ کر تیرے سامنے آیا ہوں ، دیر مت کر ۔ مجھے مرنے پر ثابت قدم دیکھ کر خدا نے اس کے دل میں رحم ڈالا اور غصہ بھی ٹھنڈا ہوا؛ اور بہت توجہ اور مہربانی سے پوچھا کہ تو کون ہے اور کیوں اپنی زندگی سے بیزار ہوا ہے؟

 

 میں نے کہا: ذرا بیٹھیے تو کہوں، میر اقصہ بہت دور دراز ہے۔ اور عشق کے پنجے میں گرفتار ہوں، اس سبب لاچار ہوں۔ یہ سن کر اس نے اپنی کمر کھولی اور ہاتھ منہ دھودھا کر کچھ ناشتا کیا ۔ مجھے بھی باعث ہوا۔ جب فراغت کر کے بیٹھا ، بولا :کہہ تجھ پر کیا گزری؟ میں نے سب واردات اس پیر مرد کی اور ملکہ کی اور اپنے وہاں جانے کی کہہ سنائی۔ پہلے سن کر رویا اور یہ کہہ کہ اس  کم بخت نے کس کس کا گھر گھالا۔ لیکن بھلا تیرا علاج میرے ہاتھ میں ہے۔ اغلب ہے کہ اس عاصی کے سبب سے تو اپنی مراد کو پہنچے۔ اور تو اندیشہ نہ کر خاطر جمع رکھ ۔ حجام کو فرمایا کہ اس کی حجامت کر کے حمام کروا دے۔ ایک جوڑا کپڑا اس کے غلام نے لاکر پہنایا۔ تب مجھ سے کہنے لگا کہ یہ تابوت جو تو نے دیکھا ، اسی شہزادۂ مرحوم کا ہے جوقفس میں مقّید تھا۔ اس کو دوسرے وزیر نے آخر مکر سے مارا۔ اس کی تو نجات ہوئی کہ مظلوم مارا گیا۔ میں اس کا کوکا ہوں۔ میں نے بھی اس وزیر کو بہ  ضرب شمشیر مارا اور بادشاہ کے مارنے کا ارادہ کیا۔ بادشاہ گڑ گڑایا اور سوگند کھانے لگا کہ میں بے گناہ ہوں میں نے اسے نامرد جان کر چھوڑ دیا۔ جب سے میرا کام یہی ہے کہ ہر مہینے کی نوچندی جمیرات کو، میں اس تابوت کو اسی طرح شہر میں لیے پھرتا ہوں اور اس کا ماتم کرتا ہوں ۔

 

اس کی زبانی یہ احوال سننے سے مجھے تسلی ہوئی کہ اگر یہ چاہے گا تو میرا مقصد بر آوے گا۔ خدا نے بڑا احسان کیا جو ایسے جنونی کو مجھ پر مہربان کیا۔سچ ہے خدا مہربان ہو تو کل مہربان ۔ جب شام ہوئی اور آفتاب غروب ہوا، اس جوان نے تابوت کو نکالا اور ایک غلام کے عوض وہ تابوت میرے سر پر دھرا اور اپنے ساتھ لے کر چلا۔ فرمانے لگا کہ ملکہ کے نزدیک جاتا ہوں ، تیری شفارش تا بہ  مقدور کروں گا۔ تو ہرگز دم نہ ماریو، چپکا بیٹا سنا کیجو  ۔ میں نے کہا: جو کچھ صاحب فرماتے ہیں، سو ہی کروں گا، خدا تم کو سلامت رکھے جو میرے احوال پر ترس کھاتے ہو۔ اس جوان نے قصد بادشاہی باغ کا کیا۔ جب اندر داخل ہوا، ایک چبوترہ سنگ مرمر کا ہشت پہلو باغ کے صحن میں تھا اور اس پر ایک نمگیرہ سفید بادلے کا ، موتیوں کی جھالر لگی ہوئی الماس کے استادوں پر کھڑا تھا اور ایک مسند مغُرّ ق بچھی تھی، گاؤ تکیہ اور بغلی تکیے زربفت کے لگے ہوئے ۔ وہ تابوت وہاں رکھوا یا او رہم دونوں کو فر مایا کہ اس درخت کے پاس جا کر بیٹھو۔

 

بعد ایک ساعت کے مشعل کی روشنی نظر آئی۔ ملکہ آپ، کئی خواصیں پس و پیش اہتمام کرتی ہوئیں ، تشریف لائیں لیکن اداسی اور خفگی چہرے پر ظاہر تھی ۔ آکے مسند پر بیٹھیں۔ یہ کو کا ادب سدست بستہ کھڑا رہا۔ پھر ادب سے دور فرش کے کنارے مؤدّب بیٹھا۔ فاتحہ پڑھیں اور کچھ باتیں کرنے لگا۔ میں کان لگائے سن رہا تھا۔ آخر اس جوان نے کہا ملکہ جہاں سلامت! ملک عجم کا شہزادہ آپ کی خوبیاں اور محبوبیاں غائبانہ سن کر اپنی سلطنت کو برباد دے، فقیر بن ، مانند ابراہیم ادہم کے تباہ ہو اور بڑی محنت کھینچ کر یہاں تلک آپہنچا ہے۔ سائیں تیرے کار نے چھوڑا شہر بلخ۔ اور اس شہر میں بہت دنوں سے حیران پریشان پھرتا ہے۔ آخر وہ قصد مرنے کا کر کے میرے ساتھ لگ چلا۔ میں نے تلوار سے ڈرایا، اس نے گردن آگے دھر دی اور قسم دی کہ اب میں یہی چاہتا ہوں ، دیر مت کر ۔ غرض تمہارے عشق میں ثابت ہے۔ میں نے خوب آزمایا، سب طرح پورا پایا: اس سبب سے اس کا مذکور میں درمیان لایا۔ اگر حضور سے اس کے احوال پر مسافر جان کر توجہ ہو تو خدا ترسی اور حق شناسی سے دور نہیں۔

 

یہ ذکر ملکہ نے سن کر فرمایا: کہاں ہے؟ اگر شہزادہ ہے تو کیا مضائقہ ! روبروآوے۔ وہ کو کا وہاں سے اٹھ کر آیا اور مجھے ساتھ لے کر گیا۔ میں ملکہ کے دیکھنے سے نہایت شاد ہوا لیکن عقل و ہوش بر باد ہوئے، عالم سکوت کا ہو گیا۔ یہ ہو او نہ پڑا کہ کچھ کہوں ۔ ایک دم میں ملکہ سدھاری اور کو کا اپنے مکان کو چلا۔ گھر آکر بولا کہ میں نے تیری سب حقیقت اول سے آخر تک ملکہ کو کہہ سنائی اور سفارش بھی کی، اب تو ہمیشہ رات کو بلا ناغہ جایا کر اور عیش خوشی منایا کر۔ میں اس کے قدم پر گر پڑا۔ اس نے گلے لگا لیا۔ تمام دن گھڑیاں گنتار ہا کہ کب سانجھ ہو، جو میں جاؤں ۔ جب رات ہوئی، میں اس جوان سے رخصت ہو کر چلا اور پائیں باغ میں ملکہ کے چبوترے پر تکیہ لگا کر جا بیٹھا ۔

 

بعد ایک گھڑی کے ملکہ تن تنہا ایک خواص کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ خوش طالعی سے یہ دن میسر ہوا۔ میں نے قدم بوس کیا۔ انہوں نے سرمیرا اٹھا لیا اور گلے سے لگالیا اور بولیں کہ اس فرصت کو غنیمت جان اور میرا کہا مان؛ مجھے یہاں سے لے نکل، کسو اور ملک چل ۔ میں نے کہا: چلیے ۔ یہ کہہ کر ہم دونوں باغ کے باہر تو ہوئے ، پر حیرت سے اور خوشی سے ہاتھ پانو پھول گئے اور راہ بھول گئے اور ایک طرف کو چلے جاتے تھے ۔ پر کچھ ٹھکانا نہیں پاتے تھے۔ ملکہ برہم ہو کر بولی کہ اب میں تھک گئی، تیرا مکان کہاں ہے؟ جلد چل کر پہنچ نہیں تو کیا کیا چاہتا ہے؟ میرے پانو میں پھپھولے پڑ گئے ہیں، رستے میں کہیں بیٹھ جاؤں گی۔

 

میں نے کہا کہ میرے غلام کی حویلی نزدیک ہے، اب آپہنچے، خاطر جمع رکھو اور قدم اٹھاؤ، جھوٹھ تو بولا ، پر دل میں حیران تھا کہ کہاں لے جاؤں !عین راه پر ایک دروازه مقفل نظر پڑا۔ جلدی سے قفل کو توڑ کر مکان سے بھیتر گئے ۔ اچھی حویلی ، فرش بچھا ہوا ، شراب کے شیشے بھرے قرینے سے طاق میں دھرے اور باورچی خانے میں نان کباب تیار تھے ۔ ماندگی کمال ہورہی تھی ، ایک ایک گلابی شراب پرتگالی کی اس گزک کے ساتھ لی اور ساری رات با ہم خوشی کی ۔ جب اس چین سے صبح ہوئی ، شہر میں غل مچا کہ شہزادی غائب ہوئی۔ محلّہ محلّہ، کوچہ کوچہ منادی پھر نے لگی اور کُٹنیاں اور ہرکارے چھوٹے کہ جہاں سے ہاتھ آوے، پیدا کریں اور سب دروازوں پر شہر کے بادشاہی غلاموں کی چوکی آبیٹھی ۔ گذر بانوں کو حکم ہوا کہ بغیر پروانگی ، چیونٹی یا ہر شہر کے نہ نکل سکے۔ جو کوئی سراغ ملکہ کا لاوے گا ، ہزار اشرفی اور خِلعت انعام پاوے گا۔ تمام شہر میں کٹنیاں پھرنے اور گھر گھر میں گھسنے لگیں۔

 

مجھے جو کم بختی لگی ، دروازہ بند نہ کیا۔ ایک بڑھیا شیطان کی خالا، اس کا خدا کرے منہ کالا، ہاتھ میں تسبیح لڑکائے، برقع اوڑھے ، دروازہ کھلا پا کر ندھڑک چلی آئی اور سامنے ملکہ کے کھڑی ہو کر، ہاتھ اٹھا کر دعا دینے لگی کہ الٰہی ! تیری نتھ چوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماؤ کی پگڑی قائم رہے! میں غریب رنڈیا، فقیر نی ہوں۔ ایک بیٹی میری ہے کہ وہ دو جی سے پورے دنوں دروزہ میں مرتی ہے اور مجھ کو اتنی وسعت نہیں کہ ادّھی کا تیل چراغ میں جلاؤں ، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں! اگر مرگئی تو گور کفن کیوں کر کروں گی؟ اور جنی تو دائی جنائی کو کیا دوں گی ؟ اور جچا کو ستھوارا ، ا چھوانی کہاں سے پلاؤں گی ؟ آج دودن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اے صاحب زادی ! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا تو اس کو پانی پینے کا ادھار ہو۔

 

ملکہ نے ترس کھا کر، اپنے نزدیک بلا کر چار نان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھنگلیا سے اتار کر حوالے کی کہ اس کو بینچ  بانچ کر گہنا پا تا بنادیجو اور خاطر جمع سے گزران کچھ اور کبھو آیا کیجو  ۔ تیرا گھر ہے۔ اس نے اپنے دل کا مدّعا ، جس کی تلاش میں آئی تھی، یہ جنس پایا۔ خوشی سے دعائیں دیتی اور بلائیں لیتی دفع ہوئی۔ ڈیوڑھی میں نان کباب پھینک دیے مگر انگوٹھی کو مٹھی میں لے لیا کہ پتا  ملکہ کے ہاتھ کا میرے ہاتھ آیا۔ خدا اس آفت سے جو بچایا چاہے، اس مکان کا مالک جواں مرد سپاہی ، تازی گھوڑے پر چڑھا ہوا، نیز ہ ہاتھ میں لیے شکار بند سے ایک ہرن لٹکائے آپہنچا۔ اپنی حویلی کا تالا ٹوٹا اور کواڑ کھلے پائے ، اس دلاّلہ کو نکلتے دیکھتا؛ مارے غصے کے ایک ہاتھ سے اس کے جھونٹے پکڑ کر لٹکا یا اور گھر میں آیا۔ اس کے دونوں پانو میں رسی باندھ کر ایک درخت کی ٹہنی میں لٹکا یا۔ سرتلے، پانو او پر کیے۔ ایک دم میں تڑپھ تڑپھ  کر مرگئی۔ اس مرد کی صورت دیکھ کر یہ ہیبت غالب ہوئی کہ ہوائیاں منہ پر اڑنے لگیں اور مارے ڈر کے کلیجا کانپنے لگا۔ اس عزیز نے ہم دونوں کو بد حواس دیکھ کر تسلی دی کہ بڑی نادانی تم نے کی۔ ایسا کام کیا اور دروازہ کھول دیا۔!

 

 ملکہ نے مسکرا کر فرمایا کہ شہزادہ اپنے غلام کی حویلی کہہ کر مجھے لے آیا اور مجھ کو پھسلایا۔ اس نے التماس کیا کہ شہزادے نے بیان واقعی کہا۔ جتنی خلق اللہ ہے، بادشاہوں کی لونڈی غلام ہیں۔ انہیں کی برکت اور فیض سے سب کی پرورش اور نباہ ہے۔ یہ غلام، بے دام درم زرخرید تمہارا ہے لیکن بھید چھپانا عقل کا مقتضا ہے۔ اے شاہ زادے ! تمہارا اور ملکہ کا اس غریب خانے میں توجہ فرمانا اور تشریف لانا میری سعادت دونوں جہان کی ہے، اور اپنے فدوی کو سرفراز کیا۔ میں نثار ہونے کو تیار ہوں، کسو صورت میں جان مال سے دریغ نہ کروں گا۔ آپ شوق سے آرام فرمائیے ، اب کوڑی بھر خطرہ نہیں۔ یہ مردار کٹنی اگر سلامت جاتی تو آفت لاتی۔ اب جب تلک مزاج  شریف چاہے، بیٹھے رہیے اور کچھ درکار ہو، اس خانہ زاد کو کہیے، سب حاضر کرے گا ۔ اور بادشاہ تو کیا چیز ہے !تمہاری خبر فرشتے کو بھی نہ ہوگی۔ اس جواں مرد نے ایسی ایسی باتیں تسلی کی کہیں کہ ٹک خاطر جمع ہوئی۔ تب میں نے کہا: شاباش !تم بڑے مرد ہوا!اس مُروَّت کا عوض ہم سے بھی جب ہو سکے گا تب ظہور میں آوے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا : غلام کا اسم بہزاد خاں ہے۔ غرض چھ مہینے تک جتنی شرط خدمت کی تھی یہ جان و دل بجالا یا ، خوب آرام سے گزری۔

 

 ایک دن مجھے اپنا ملک اور ماں باپ یاد آئے اس لیے نہایت متفکر بیٹھا تھا۔ میرا چہر ملین دیکھ کر بہزاد خان روبرو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس فدوی سے اگر کچھ تقصیر چرن برداری میں واقع ہوئی ہو تو ارشاد ہو۔ میں نے کہا: از برائے خدا یہ کیا مذکور ہے !تم نے ایسا سلوک کیا کہ اس شہر میں ایسے آرام سے رہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ میں کوئی رہتا ہے ۔ نہیں تو یہ ایسی حرکت ہم سے ہوئی تھی کہ تنکا تنکا ہمارا دشمن تھا۔ ایسا دوست ہمارا کون تھا کہ ذرادم لیتے ۔ خدا تمہیں خوش رکھے، بڑے مرد ہو ۔ تب اس نے کہا: اگر یہاں سے دل برداشتہ ہوا ہو تو جہاں حکم ہو، وہاں خیر وعافیت سے پہنچا دوں۔ فقیر بولا کہ اگر اپنے وطن تک پہنچوں تو والدین کو دیکھوں۔ میری تو یہ صورت ہوئی ، خدا جانے ان کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ میں جس واسطے جلا وطن ہوا تھا، میری تو آرزو بر آئی ؛اب ان کی بھی قدم بوسی واجب ہے۔ میری خبر ان کو کچھ نہیں کہ موامرا یا جیتا ہے، ان کے دل پر کیا قلق گزرتا ہوگا ! وہ جواں مرد بولا کہ بہت مبارک ہے۔ چلیے ۔ یہ کہہ کے ایک راس گھوڑا تر کی سوکوس چلنے والا اور ایک گھوڑی جَلد ، جس کے پر نہیں کٹے تھے لیکن شایستہ ، ملکہ کی خاطر لایا اور ہم دونوں کو سوار کروایا۔ پھر زرہ بکتر پہن ، سلاح باندھ ، او پچی بن ، اپنے مرکب پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا: غلام آگے ہو لیتا ہے، صاحب خاطر جمع سے گھوڑے دبائے ہوئے چلے آویں۔

 

 جب شہر کے دروازے پر آیا، ایک نعرہ مارا اور تبر سے قفل کو توڑا اور نگہبانوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر للکارا کہ بڑ چودو! اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خاں ملکہ مہر نگار اور شہزادۂ کام گار کو، جو تمہارا داما  د ہے، ہانکے پکارے لیے جاتا ہے؛ اگر مردی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور ملکہ کو چھین لو، یہ  نہ کہو کہ چپ چاپ لے گیا، نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔ یہ خبر بادشاہ کو جلد جا پہنچی ۔ وزیرا در میر بخشی کو حکم ہوا :ان تینوں بدذات مفسدوں کو باندھ کر لاؤ یا ان کے سرکاٹ کر حضور میں پہنچاؤ ۔ ایک دم کے بعد غٹ فوج کا نمود ہوا اور تمام زمین و آسمان گردباد ہو گیا۔ بہزاد خاں نے ملکہ کو اور اس فقیر کو ایک در میں پل کے۔ کہ بارہ پلے اور جون پور کے پل کے برابر تھا، کھڑا کیا اور آپ گھوڑے کو ٹنگیا کر اس فوج کی طرف پھرا اور شیر کی مانند گونج کر مرکب کو ڈپٹ کر فوج کے درمیان گھسا۔ تمام لشکر کائی سا پھٹ گیا اور یہ دونوں سرداروں تلک جا پہنچا۔ دونوں کے سرکاٹ لیے ۔ جب سردار مارے گئے لشکر تتر بِتر ہو گیا۔ وہ کہاوت ہے: سرے سِر واہ۔ جب بیل پھوٹی ، رائی رائی ہوگئی۔ وہیں آپ بادشاہ کتنی فوج بکتر پوشوں کے ساتھ لے کر کمک کو آئے ۔ ان کی بھی لڑائی اس یکہ جوان نے ماروی شکست فاش کھائی۔ بادشاہ پسپا ہوئے۔ سچ ہے فتح داد الہٰی ہے۔ لیکن بہزاد خاں نے ایسی جواں مردی کی کہ شاید رستم سے بھی نہ ہو سکتی۔

 جب بہزادخاں نے دیکھا کہ مطلع صاف ہوا، اب کون باقی رہا ہے جو ہمارا پیچھا کرے گا؛بے  وسواس ہو کر اور خاطر جمع کر ، جہاں ہم کھڑے تھے آیا اور ملکہ کواور مجھ کو ساتھ لے کر چلا۔ سفر کی عمر کوتاہ ہوتی ہے ۔ تھوڑے عرصے میں اپنے ملک کی سرحد میں جاپہنچے ۔ ایک عرضی صحیح سلامت آنے کی بادشاہ کے حضور میں، جو قبلہ گاہ مجھ فقیر کے تھے، لکھ کر روانہ کی ۔ جہاں پناہ پڑھ کر شاد ہوئے ، دوگانہ شکر کا ادا کیا، جیسے سوکھے دھان میں پانی پڑا۔ خوش ہو کر سب امیروں کو جلو میں لے کر اس عاجز کے استقبال کی خاطر اب دریا آکر کھڑے ہوئے اور نواڑوں کے واسطے میر بحر کوحکم ہوا۔ میں نے دوسرے کنارے پر سواری بادشاہ کی کھڑی دیکھی ، قدم بوسی کی آرزو میں گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ ہیلہ مار کر حضور میں حاضر ہوا۔ مجھے مارے اشتیاق کے کلیجے سے لگالیا۔

 

 اب ایک اور آفت ناگہانی پیش آئی کہ جس گھوڑے پر میں سوار تھا، شاید وہ بچہ اسی مادیان  کا تھا جس پر ملکہ سوار تھی ۔ یا جنسیت کے باعث میرے مرکب کو دیکھ کر گھوڑی نے جلدی کر کر اپنے تیئں ملکہ سمیت میرے پیچھے دریا میں گرایا اور پیر نے لگی۔ ملکہ نے گھبرا کے باگ کھینچی۔ وہ منہ کی نرم تھی ، الٹ گئی۔ ملکہ غوطے کھا کر بہ مع گھوڑی دریا میں ڈوب گئی کہ پھر ان دونوں کا نشان نظر نہ آیا۔ بہزاد خاں نے یہ حالت دیکھ کر اپنے تئیں گھوڑے سمیت ملکہ کی مدد کی خاطر دریا میں پہنچایا۔ وہ بھی اس بھنور میں آگیا، پھر نکل نہ سکا۔ بہتیرے ہاتھ پانو مارے، کچھ بس نہ چلا، ڈوب گیا۔ جہاں پناہ نے یہ واردات دیکھ کر مہاجال منگوا کر پھنکوایا اور ملاحوں اور غوطہ خوروں کو فرمایا۔ انہوں نے سارا دریا چھان مارا ،تھاہ کی مٹی لے لے آئے ، پروے دونوں ہاتھ نہ آئے ۔ یا فقرا! یہ حادثہ ایسا ہوا کہ میں سودائی اور جنونی ہو گیا اور فقیر بن کر یہی کہتا پھرتا تھا: ان نینوں کا یہی بسیکھ ، وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھے۔ اگر ملکہ کہیں غائب ہو جاتی یا مرجاتی تو دل کی تسلی آئی پھر تلاش کو نکلتا یا صبر کرتا۔ لیکن جب نظروں کے روبرو فرق ہوگئی تو کچھ بس نہ چلا۔ آخر جی میں یہی لہر آئی کہ دریا میں ڈوب جاؤں شاید اپنے محبوب کر مر کر پاؤں۔

 

 

ایک روز رات کو اسی دریا میں پیٹھا اور ڈوبنے کا ارادہ کر کر گلے تک پانی میں گیا۔ چاہتا ہوں کہ آگے پانو رکھوں اور غوطہ کھاؤں ، وہی سوار برقع پوش جنہوں نے تم کو بشارت دی ہے، آپہنچے۔ میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دلا سا دیا کہ خاطر جمع رکھ، ملکہ اور بہزاد خاں جیتے ہیں، تو اپنی جان ناحق کیوں کھوتا ہے ! دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ خدا کی درگاہ سے مایوس مت ہو ، اگر جیتا ر ر ہے گا تو تیری ملاقات ان دونوں سے ایک نہ ایک روز ہو رہے گی۔ اب تو روم کی طرف جا اور بھی دو درویش دل ریش وہاں گئے ہیں۔ ان سے تو جب ملے گا، اپنی مراد کو پہنچے گا۔

 

 یا فقر ا! بہ موجب حکم اپنے ہادی کے، میں بھی خدمت شریف میں آکر حاضر ہوا ہوں۔ امید قوی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مطلب کو پہنچے۔ اس ٹکڑ گدا کا یہ ا حوال تھا، جو تمام کمال کہہ سنایا۔

 


Post a Comment

0 Comments