Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Anarkali By Imtiyaz Ali Taj|انار کلی-سید امتیاز علی تاج

انار کلی-سید امتیاز علی تاج

Anarkali By Imtiyaz Ali Taj

باب اوّل منظر دو

مندرجہ ذیل اقتباس امتیاز علی تاج کا شاہکار ڈرامہ ’’انارکلی‘‘ سے ماخوذ ہے۔یہ اقتباس ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد کےبی۔اے، بی۔ایس سی، بی۔کام اردو، زبان دوّم سال اوّل میقات دوّم کے نصاب میں شامل ہے۔

انار کلی-سید امتیاز علی تاج


شہزادہ سلیم کے محل کا شمال مغربی ایوان ۔محل قلعہ لاہور میں حرم سرا کی چار دیوری سے باہر لیکن اس سے بہت کم فاصلے پر واقع یہ ایوان جس کے آگے ایک جھرو کے دار مثمن برج ہے، بیرونی منظر کی سرسبزی شادابی کے باعث ایسا دلکشا اور فرحت زا مقام بن گیا کہ کوئی بھی مغل اپنے اوقات فرصت گزارنے کے لئے تمام محل میں سے اس ایوان کے سواد دوسرا مقام منتخب نہ کر سکتا۔

 

 دور جہاں غروب آفتاب نیلے آسمان پر ارغونی رنگ آمیزی کر رہا ہے گھنے پیڑوں کے طویل سلسلے میں سے کھجوروں کے سر بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظر آ رہے ہیں۔ راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہی ہے برج کے مغربی جھروکے میں سے ایک مسجد کے سفید گنبد اور سرخ میناروں کا کچھ حصہ نظر آتا ہے۔

اندر برج کے آگے سنگ مرمر کا ایک چبوترہ ہے جو تمام ایوان کے عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ اس چبوترے کے دونوں پہلوؤں پر مغلیہ انداز کی محرابوں والے دروازے ہیں جن میں سے دایاں حرم سرا کو اور بایاں بیرونی حصوں کو جاتا ہے۔ تین سیٹرھیاں جو چبوترے ہی کے برابر عریض ہیں ایوان میں اترتی ہیں۔ ایوان کی دائیں اور بائیں دیوار میں محل کے دوسرے حصوں میں جانے کے دروازے ہیں۔

 

ایوان میں بیش قیمت ایرانی قالین بچھے ہیں جن پر زری کی تکیوں والی مسند جڑاؤ تخت پر رکھی ہوئی بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ سامان آرائش کم مگر پر تکلف ہے اور اگر چہ تزئین میں بے حد سادگی سے کام لیا گیا ہے اور بحیثیت مجموعی ایوان کسی قدر خالی خالی معلوم ہوتا ہے، مگر دیواروں کے نقش و نگار، برج کے جھروکوں پر جالیوں کی صنعت، دروازوں پر گراں قیمت اطلسی پر دے اور مناسب مقامات پر طلائی چوکیاں۔ ہشت پہلو میزیں اور ان پر جڑاؤ پھولدان دیکھنے سے مغلیہ تجمل کا اثر دل پر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔

 

سلیم برج کے جھروکے میں بیٹھا راوی پر غروب آفتاب کو دیکھ رہا ہے اندر زعفران اور ستار  دف بجا بجا کر ناچ رہی ہیں مگر ان کو علم ہے کہ سلیم متوجہ نہیں ۔ کچھ دیر ناچنے کے بعد وہ ٹھہر جانے میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتیں۔ مگر کھڑی کھڑی اس خیال سے پاؤں ہلاتی رہتی ہیں کہ سلیم سمجھے ناچ رہی ہیں۔ زعفران ستارہ کو اشارے سے چلنے کے لئے کہتی ہے۔ ستارہ نفی میں سر ہلا دیتی ہے۔ آخر دونوں قریب آکر لبوں میں گفتگو شروع کر دیتی ہیں۔

 

ستارہ :                پوچھ لے پہلے۔

 زعفران:           چل بھی دے چپکے سے ۔ انہیں دریا کی سیر سے فرصت کہاں

ستارہ:                اور جو مہارانی پوچھ بیٹھیں ، ایسی جلدی کیوں لوٹ آئیں؟

 زعفران:           کہ دیں گے وہ تو دیکھ رہے تھے لہروں کا ناچ ، ہم دیواروں کے آگے ناچتے گاتے؟

ستارہ:                 ہاں کہہ ہی تو دیں گی۔

زعفران :           اور کیا نہیں بھی؟

ستارہ:                اے تو تم اجازت ہی جو لے لو۔ تم سے بہت ہنس ہنس کر کے باتیں کیا کرتے ہیں کیوں؟

زعفران:           (جیسے شرما گئی، ہلکا سا طمانچہ مارتی ہے ) چل قطامہ !

ستارہ:                افوہ شرما بھی تو گئیں۔

زعفران :           میں کیوں شرماتی ، پوچھ لیتے ہیں ہم ( زعفران اس انداز سے سلیم کی طرف جاتی ہے گویا ایک اہم خدمت کے لئے منتخب کی گئی ہے کہیں پاؤں ٹیڑھا پڑ جاتا ہے اور گر پڑتی ہے ) ؎۔ ( سلیم چونک زعفران کی طرف دیکھتا ہے اور برج میں سے اٹھ کر اندر آ جاتا ہے۔ تیکھے نقش کا وارستہ مزاج طبعیت کا بندہ جو شباب کے اولیس مراحل میں ہے۔) (ستارہ ہنسی روکتی ہے زعفران نیچے پڑی پڑی پہلے سلیم کی طرف پھر ستارہ کی طرف دیکھتی ہے۔)

سلیم:                کیا ہواز عفران؟

ستارہ:                (جنسی ضبط کرتے ہوئے ) حضور سے رخصت کی اجازت لینے جارہی تھیں نگوڑے چیونٹے سے ٹھوکر ۔۔۔ (کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے)

زعفران:           نامراد ہنسے جارہی ہے کھڑی کھڑی۔

سلیم:                تم چاہتی ہو تمہیں آکر اٹھائے۔ (سلیم زعفران کو اٹھانے کے لئے اس کی طرف بڑھتا۔ زعفران خود اٹھ کھڑی ہوتی ہے ستارہ شوخی سے اس کے کپڑے جھاڑنے لگتی ہے۔ زعفران اسے ایک تھپڑ رسید کرتی ہے )

سلیم:                تم بہت شوخ ہو زعفران ۔

زعفران:           ہاں حضور بھی جب کہتے ہیں ہمیں ہی شوخ کہتے ہیں ( ناز کے مصنوعی کھسیانے پن سے ) ایک تو میں لے کے گر پڑی ( سلیم اور ستارہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑتے ہیں) حضور کو تو ہنسی کی سوجھ رہی ہے ۔ جاتے ہیں ہم ۔ ( چلی ہی تو جائیں گی )

سلیم :                (مسکراتے ہوئے ) کہاں چلیں؟ بات تو سنو۔

زعفران:           (چلتے چلتے رک کرستارہ کی طرف دیکھتی ہے اس کے چہرے پر پھر ایک پر معنی تبسم ہے ) پھر اس کو بھیج دیجئے یہاں سے۔

سلیم:                وہ تمہیں کیا کہہ رہی ہے؟

ستارہ:                اب تو یہ نکلو ایں گی ہی ہمیں۔ ادھر انار کلی نے سر پر چڑھا رکھا ہے اور ادھر آپ نے منہ سلیم لگا رکھا ہے جو نہ کریں تھوڑا ہے۔

سلیم :                (انارکلی کا ذکر ہو اور سلیم دلچسپی نہ لے )افوہ تو ان کی بھی تم سے بے تکلف ہیں زعفران ثریا تو کہتی تھی کہ وہ کسی سے بات نہیں کرتیں۔

 زعفران:           تو حضور آدمی دیکھ کرہی بات ہوتی ہے نا۔

 ستارہ:                ہاں ان میں تو بڑے چاند جڑے ہیں۔

زعفران:            پھر کیا نہیں بھی؟

سلیم :                (مسند پر بیٹھ کر ) تو تم سے کیا با تیں کیا کرتی ہیں وہ؟

زعفران:           اب کوئی باتیں مقرر تو ہیں نہیں ۔ سبھی طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔

سلیم :                خوب خوب۔۔۔۔۔ (کچھ سمجھ میں نہیں آتا ، کیا بات کر کے اس تذکرےکو جاری رکھے ) غرضیکہ بہت محبت ہے تم کو انار کلی سے؟

زعفران:           اے مجھی کو کیا، کون سا ہے بھلا آدمی سرا میں جو انہیں نہ چاہتا ہو۔

(بڑی تمکنت سے سر پھیر کر ستارہ پر ایک نظر ڈالتی ہے )

سلیم:                تو ہم نہیں بھلے آدمی زعفران ؟ ( گویا دیکھوں تو زعفران سامنے سے کیا کہتی ہے؟)

ستارہ:                ( زعفران کی پریشانی کو بھانپ کر ) گھبرا کیوں گئیں؟

 

زعفران :           اب حضور کے، حضور کی تو۔ میں نے تو محل سرا، تو بہ تو بہ۔ اے حضور میں تو اس کل موہی کے جلانے کو کہہ رہی تھی ۔

ستار:                 ( فاتحانہ انداز میں مسکرا کر ) اب کیوں نہ کہوگی یوں؟

سلیم:                (لطف لیتے ہوئے ) ہم یوں باتوں میں نہیں اڑنے کے۔ اب تو زعفران تمہیں ہم کو بھی بھلے آدمیوں میں شامل کرنا ہی پڑے گا۔

زعفران:           اے بھول ہو گئی حضور بخش دیجئے۔

ستارہ:                بھول کیوں ، اب لاؤنہ جا کر اپنی انار کلی کو۔

سلیم:                ہاں ہاں ان کے گانے کی بھی تو بہت تعریف سنی ہے ہم نے ۔

زعفران:           مجھ سے اچھا تھوڑا ہی گاتی ہے۔

سلیم:                لیکن زعفران ہم بھلے آدمی بھی تو بننا چاہتے ہیں۔ کیوں ستارا؟

ستارہ:                حضور اب جان بچانا چاہتی ہے۔

سلیم:                ناکام رہوگی زعفران۔

زعفران:           میں پھر جلا  کر بلا بھی لاؤں گی۔

ستارہ:                جاؤ نہ پھر انتظار کا ہے کا ہے

زعفران:           اچھی بات ہے ( تاؤ میں آکر چل پڑتی ہے)

سلیم:                ( متوقع ملاقات کے اندیشوں سے یک لخت سراسیمہ ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے) ٹھیر وٹھیرو  زعفران!

ستارہ:                جانے بھی دیجئے حضور ۔ جو اس کے کہے سے وہ کبھی آجائے ۔

زعفران:           اور اگر لے آئی تو ۔

سلیم:                (گھبرا کر ) نہیں نہیں زعفران نہیں۔

 ستارہ:                تو مضائقہ بھی کیا ہے حضور ۔ سبھی تو آتے جاتے ہیں یہاں۔

سلیم:                 تم کو نہیں معلوم اس میں ۔۔۔۔۔ بس نہیں تم جاؤ ( ایسے انداز سے دور جا کر کھڑا ہو جاتا ہے جس کے صاف یہ معنی ہے کہ زعفران اور ستارہ رخصت ہو جائیں)۔ ( دونوں حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں اور سرگوشیاں کرتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔سلیم تنہا رہ جاتا ہے۔)

 

اللہ !پھر یہ سہمی  ہوئی محبت کب تک راز رہے گی۔ مہجور دل یوں ہی چپ چاپ دکھا کرے گا۔ یا وہ فرخندہ ساعت بھی آئے گی جس کی امید میں زندگی قیامت ہے۔ (آہ بھر کر) کیسے آئے گی ۔ وہ کہاں مانیں گے۔ ہائے وہ تو کہہ دیں گے وہ انارکلی ہے ۔ حرم سرا کی کنیز، توسلیم ہے مغلیہ ہند کا شہزادہ، پھر میں کیسے اپنا سینہ ان کے سامنے کھول کر رکھ دوں گا۔ میرے اللہ میں کیا کروں!(بے چین ہو کر مسند پر گر پڑتا ہے اور تکیے پر سر رکھ دیتا ہے )۔


( ذرا دیر خاموشی رہتی ہے پھر دور دریا کی طرف سے گانے کی ہلکی ہلکی آواز آتی ہے ۔ سلیم کچھ دیر اسی طرح پڑا سنتارہتا ہے پھر اٹھتا ہے اور سست قدموں سے برج میں جاتا ہے اور دریا کی طرف جھانکتا ہے۔ آخر جھروکے کے ساتھ سرٹیک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور گیت سننے لگتا ہے۔ آواز مدھم ہوتی ہوتی غائب ہو جاتی ہے )

 

راوی کے دلشاد ملاح ! تو کیوں نہ گائے ، لہریں نیند میں بہہ رہی ہوں اور کشتی اپنے آپ چلے جارہی ہو۔ پھر بھی نہ گائے ؟ تو کیا جانے ، جب وقت کی ندی بہتے بہتے سست پڑ جاتی ہے اور امید ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو کیا ہوتا ہے ( آہ بھر کر )۔ شفق زار لہروں پر گا تا ہوا چلا جا اور خوش ہو کہ تو شہزادہ نہیں ورنہ سنگ مرمر کی چھتوں کے نیچے اور بھاری بھاری پردوں کے اندر تیرے گیت بھی دبی ہوئی آہیں ہوتے ۔ ( سر جھکا کر خاموش ہو جاتا ہے )۔

 

( سورج ڈوب چکا ہے ۔ باہر شام کا دھند لگا ہے ایوان کے اندر تاریکی دم بہ دم گہری ہوتی جارہی ہے ) ( چبوترے کے دروازے سے دو خوجہ سرا داخل ہوتے ہیں۔ ایک نے روشن مشعلیں  اور دوسرے نے ایک چو کی اٹھارکھی ہے، اندر آ کر وہ تعظیم بجالاتے ہیں۔ ان میں ایک فانوس کے نیچے چوکی رکھ دیتا ہے دوسرا چڑھ کر مشکل سے فانوس روشن کرتا ہے پھردو  نوں چپ چاپ اگلے بائیں دروازے سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بختیار چبوترے کے بائیں دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ سلیم کے ساتھ کا کھیلا ہوا اس قدر بے تکلف دوست ہے کہ اسے داخل ہونے کے لئے اجازت حاصل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ خوش طبع نوجوان ہے جس کی آنکھوں میں خلوص چمکتا ہوا نظر آتا ہے )۔

بختیار:               (سلیم کو برج میں مستغرق دیکھ کر ) پھر سوچ میں؟

سلیم:                بختیار آگئے تم ؟ ( سیڑھیاں اتر کر ایوان میں آجاتا ہے )

بختیار:               آپ کس فکر میں غرق ہیں؟

سلیم:                میں سوچ رہا ہوں بختیار۔ مطمئن ملاح ایک آرزومند شہزادے کی نسبت کس قدر خوش نصیب ہے۔

بختیار :               میں ان ملاحوں کا ادھر سے آنا جانا ہی بند کرادوں گا۔

سلیم:                کیوں؟

بختیار:               نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

سلیم :                احمق پھانس نکالنے کی بجائے انگلی کا ٹنا چاہتا ہے؟                   

بختیار:               پھانس نکالنا بس میں جو نہیں۔

سلیم:                (مسند پر بیٹھتے ہوئے) جبھی تو کہتا ہوں آرزؤئیں پوری کرنے کی قدرت نہ ہو تو حکومت اور ناداری یکساں ہیں۔

 بختیار:               تو پھر سودا کر لیجئے ۔ ولی عہدی کا بوجھ میں اُٹھائے لیتا ہوں ۔

سلیم:                اور اس کے بدلے مجھے کیا دو گے؟

بختیار:               انار کلی ۔

سلیم:                وہ کیسے؟

بختیار:               یہ رہی (جیب میں سے ایک رومال نکالتا اور اسے مسند پر رکھ کر بڑے اہتمام سے کھولتا ہے۔ رومال میں انار کے پھول اور کلیاں ہیں۔ ایک کلی اٹھا کر بہت تکلف سے سلیم کو دیتا ہے۔)

سلیم:                تم کتنے خوش فکر ہو بختیار۔

بختیار:               قبلہ ڈبیہ میں بند کر کے رکھنے کے قابل ہوں۔

سلیم:                (کلی کو دیکھتا رہا ہے ) کتنا حسن، کتنی رعنائی ہے اس کلی میں ۔ رنگ بو اور نزاکت ننھی سی نیند میں سورہے ہیں لیکن بختیار انارکلی ۔۔۔۔۔ اس سے ان کا کیا تعلق؟ وہ تو فردوس کا ایک خواب ہے ۔ شباب کی آنکھوں کی قوس قزح اورسچ مچ  بختیار ،کبھی کبھی تنہائی میں مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، وہ صرف میرا تصور ہے اسے حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ جیسے میں نے ایک خیال کو اپنے دل کے سنگھاسن پر بیٹھا لیا ہے اور اسے پوج رہا ہوں ۔

بختیار:               عرفی کی صحبت آپ کو شاعر بنادے گی۔

سلیم:                ( کلی کو دیکھتا دیکھتا کسی خیال میں غرق ہو چکا ہے۔ بختیار کی طرف توجہ نہیں رہی ) کیا ؟

بختیار :               (سلیم کو بے توجہ دیکھ کر ذرا بلند آواز سے ) مغلوں کو مد بر بادشاہ ہوں کی ضرورت ہے۔ وہ شاعر بادشاہ نہیں چاہتے ۔

سلیم:           (اسی بے خبری کی کیفیت میں ) درست ہے۔

بختیار:               قابل عمل تو کیوں ہو گا ؟

سلیم:                ( یک لخت کھڑا ہو کر بختیار کوشانوں سے پکڑ لیتا ہے ) اور بختیار اگر میں اپنا تمام محل ان ہی انار کے پھولوں اور کلیوں سے سجالوں ۔ اور پھر کسی روز انار کلی بھول کر ادھر آ جائے۔ آوروہ دیکھے کہ اسی کے نام کے پھولوں سے میں نے اپنے محل میں اک آگ سی لگا رکھی ہے۔ پھر، پھر ؟

بختیار:               اور اگر انار کلی سے پہلے ظل الہٰی   ادھر آجائیں پھر؟

سلیم:                (سوچتے ہوئے) پھر کیا ہو؟

بختیار:               اکبر اعظم کی نگاہ اپنے فرزند کی نسبت بہت زیادہ دور بین اور معاملہ فہم ہے اور وہ بہت جلد ہر بات کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے۔

سلیم:                ( سوچ میں بیٹھ جاتا ہے ) وہ اس سے کیا نتیجہ نکالیں؟

بختیار:               جو نتیجہ آپ نہیں چاہتے کہ وہ نکالیں (سلیم کے سامنے مسند پر بیٹھ جاتا ہے ) انارکلی کا خطاب ابھی حرم سرا کی پرانی بات نہیں اور آپ کی یہ تنہا پسندی اور افسردگی اور پھر ان پھولوں کی رنگ و بوسب سے بڑی جاسوس بن سکتی ہے۔

سلیم:                سوختہ اختری، نجس تھی وہ ساعت جب تیرہ بختی نے مجھے دومان مغلیہ کا ولی عہد کر دیا اور اس سے زیادہ نحس تھاوہ لمحہ جب انار کلی کی حیران نظروں نے اس دل کو ایک انگارہ بنا دیا۔ ( بختیار سلیم کی طرف ہمدردی کی نظروں سے دیکھتا ہے )

 

دلارام چبوترے کے دائیں دروازے سے داخل ہوتی ہے نہ بختیار نے اسے دیکھانہ سلیم نے ۔ جب وہ قریب پہنچ کر تعظیم بجا لاتی ہے تو بختیار اسے دیکھ کر انار کے پھولوں کو فورا مسند کےتکیے  کے نیچے چھپا دیتا ہے۔ دلا رام دیکھ لیتی ہے مگر تعظیم بجالا کر خاموش کھڑی ہو جاتی ہے۔

 سلیم:                کیا ہے دلارام؟

دلارام:             کل الہٰی حرام سراسے  باہر تشریف لا رہے ہیں انہوں نے اطلاع بھیجی ہے کہ وہ آپ کی طرف بھی آئیں گے۔

سلیم:                ادھر آئیں گے؟ وہ خود!

دلارام:             حضور۔

سلیم:                ( بختیار کی طرف متفکر نظروں سے دیکھ کر ) کیوں؟ ( دلارام سے ) تمہیں معلوم ہے کیوں؟

دلارام:             جی نہیں۔

سلیم:                کوئی خاص بات تو نہیں سنی تم نے ؟

دلارام:             جی نہیں

سلیم:                (کچھ تامل کے بعد ) میں استقبال کو حاضر ہوتا ہوں ( سلیم سوچ میں کھڑا ہو جاتا ہے۔  دلارام چلنا چاہتی ہے )

بختیار :               ( جواب تک دلا رام کو دلچسپی کی میٹھی نظروں سے دیکھتا رہا ہے ) کیا نام تھا تمہارا؟ ولا رام نہ؟ ہاں (مسکرا کر ) کچھ نہیں ۔ دلارام ! خوب نام ہے، تم جاؤ۔

( دلارام خاموشی سے چلی جاتی ہے ۔ بختیار گردن بڑھا بڑھا کر ادھر دیکھ رہا ہے۔ جدھر دلارام گئی ہے کہ شاید پردوں میں سے دلا رام ایک مرتبہ ایوان میں جھانکے۔ یک لخت ایک با رعب انداز سے نوبت پٹنی اور شہنائیاں بجھنی شروع ہو جاتی ہیں۔

سلیم:                وہ حرم سے برآمد ہو گئے ۔ تم ٹھہرو بختیار ،میں استقبال کو جاتا ہوں ۔

(سلیم جاتا ہے، بختیار مسند کے تکیے درست کرتا ہے ایک تکیے کے نیچے سے انار کے وہ پھول نکلتے ہیں جو اس نے دلارام کو دیکھ کر چھپا دیئے تھے۔ انہیں اٹھا لیتا ہے اور ادھر ادھر  دیکھتا ہے کہ کہاں رکھے ۔ مگر قدموں کی آہٹ سن کر پھر تکیے کے نیچے چھپا دیتا ہے۔

 سلیم ، اکبر حکیم ہمام اور چند خواجہ سرا داخل ہوتے ہیں۔ خواجہ سرا دروازے کے قریب آکر رک جاتے ہیں۔ سلیم ، اکبر اور حکیم ہمام آگے بڑھ جاتے ہیں بختیار مجرا بجالاتا ہے۔


 اکبر گٹھے ہوئے جسم کا خوش شکل اور میانہ قد شخص ہے۔ پیشانی اور رخساروں کی شکنیں گو دیکھنے والوں کی دل میں خوش اخلاقی اور علم کا اعتماد پیدا کرتی ہیں لیکن غالبا ًدنیائے خیال میں رہنے کے باعث خواب ناک آنکھوں میں کچھ ایسی قوت ہے جو قطع نظر اس امر کہ وہ شہنشاہ ہند ہے ہر شخص کو محتا ط ر  ہنے اور نظریں جو کالینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ گردن کی باوقار حرکت سے ظاہر ہے کہ عالی ہمت شخص ہے۔ مضبوط  دہانہ کہہ رہا ہے کہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لاسکتا۔ حرکات میں مستعدی ہے رفتار میں ایک ایسا انداز گویا زمین کی تحقیر کر رہا ہے اس وقت وہ سلیم سے ناخوش نظر آتا ہے لیکن سلیم سے اس کی غیر معمولی الفت اس قدر مسلم ہے کہ محرمان حرم بخوبی جانتے ہیں۔ یہ کبیدگی پدرانہ فہمائش کو موثر بنانے کے لئے سوچ سمجھ کر اختیار کی گئی ہے اور اس غیظ و غضب سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں جو کبھی کبھارا کبر کو بے پناہ بنا دیا کرتا ہے)

اکبر:                 حکیم صاحب کہتے ہیں تم علیل ہو شیخو؟

سلیم :                ( گومگو کے عالم میں ) نہیں تو جہاں پناہ ۔

اکبر:                 ( حکیم صاحب پر نظر ڈال کر ) کیوں حکیم صاحب؟

حکیم :                ظل الہی غلام بارگاہ میں کوئی خاص مرض تو تشخیص نہیں کر سکا البتہ ست اور مضمحل دیکھ کر۔۔

 

اکبر:                 اسے یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ بیمار ہے۔

حکیم:                ظل الہی غلام کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔

اکبر:                 تم علیل نہیں تو پھر یہ کیا ہے شیخو۔ کہ ہر ایک تمہاری بے تو جہی کا شا کی ہے، نہ تمہیں اپنی تعلیم کا خیال ہے نہ ضروری مشاغل کا۔ سواری کو تم نہیں نکلتے ، شکار کوتم نہیں جاتے، تم دستر خوان تک پر نظر نہیں آتے ۔ آخر کیوں ؟ تم اپنے باپ کے سامنے حاضر ہونے میں اپنی تو ہین سمجھتے ہو ۔ یاد یکھنا چاہتے کہ اگر تم اس کے پاس نہ جاؤ تو کب تک بے صبر نہیں  ہوتا ۔ تم نے دیکھ لیا ؟ تو خوش ہو اب ؟

سلیم:                میں شرمندو ہوں۔

اکبر:                 نہیں شاید تم یہ بھی دیکھنا چاہتے ہو کہ مامتا کب تمہاری ماں کو حرم کی چار دیواری سے باہر کھینچ کر لاتی ہے۔ کیوں شیخو ؟ ماں کے بلانے پر ہر مرتبہ عذر  کر بھیجنا پھر اور کیا معنی رکھتا ہے؟

سلیم:                میں ابھی ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔

اکبر :                 تم کو اگر ماں باپ کی پروا نہیں تو وہ بھی تم سے بے پروا ہو سکتے ہیں۔

سلیم:                میں معافی چاہتا ہوں۔

اکبر:                 میں جانتا ہوں یہ معافی اکبر بادشاہ سے ہے، اکبر باپ سے نہیں ۔ بادشاہ تمہیں معاف کرتا ہے، باپ اظہار افسوس سے کچھ زیادہ چاہتا ہے۔ (سلیم کے آنسو نکل آتے ہیں)

آنسو! بادشاہ بھی تمہیں معاف نہیں کر سکتا ، معاف نہیں کر سکتا سلیم ۔ وہ مغل شہزادوں کو سیاست کی الجھنوں میں مجنوں دیکھ سکتا ہے وہ انہیں ہوس ملک گیری میں گرفتار دیکھ سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے ان کے زخموں سے کیا کرے وہ جانتا ہے ان کی سربریدہ نعشوں کو کیا کرے۔ مگر آنسو آنسو ۔۔۔۔ جا اپنی ماں کے پاس جا، ان آنسوؤں کو تو اس کے ہاتھ بیچ سکتا ہے۔۔۔۔ جاؤ سلیم !

 ( سلیم سر جھکائے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا حرم کی طرف جاتا ہے اکبر کھڑا دیکھتارہتا ہے)

 

 بیوقوف لڑکا ۔۔۔۔۔ چلئے حکیم صاحب (چلتے چلتے ٹھہر کر ) بختیار۔ تم شیخو کے آنے تک یہیں ٹھہر و۔ تنہائی میں وہ پھر آنسو بہائے گا۔۔۔۔۔ احمق ۔۔۔۔۔ چلئے حکیم صاحب (چلتے چلتے پھر ٹھہر کر ) یا تم بھی ہمارے ساتھ آؤ بختیار ہم ایک اور طرح اس کی اشک شوئی کرنا چاہتے ہیں۔

 

(سب بائیں دروازے سے بیرونی حصے کو چلے جاتے ہیں ۔ جب ایوان خالی ہو چکتا ہے تو حرم کے دروازے کے پردے ہلتے ہیں اور دلارام سر نکال کر جھانکتی ہے۔ جب اطمینان ہو جاتا ہے کہ کوئی موجود نہیں تو دبے پاؤں ادھر ادھر دیکھتی ہوئی اندر آجاتی ہے۔ ہر طرف دیکھ کر اطمینان کرتی ہے کہ کوئی واپس نہ آرہا ہو ۔ پھر مسند کی طرف بڑھتی ہے اور تکیے اٹھا اٹھا کر دیکھتی ہے۔ ایک تکیے کے نیچے سے اسے انار کے پھولوں کا رو مال مل جاتا ہے۔ دلا رام ادھر ادھر دیکھ کر رو مال کھول لیتی ہے)۔

دلارام :             پھول! ۔۔۔۔۔ پھر چھپائے کیوں !انار کے پھول !۔۔۔۔ کیا تھا؟


پھول ہاتھ میں لئے دو سوچ میں پڑ جاتی ہے قدموں کی آہٹ سن کر یک لخت چونکتی ہے اور بیرونی دروازے کی طرف دیکھتی ہے گھبرا کر واپس آتی ہے اور پھول تکیے کے نیچے رکھ کر حرم کے دروازے کی طرف بھاگتی ہے ادھر سے بھی گھبرا کر واپس آتی ہے پریشانی کے عالم میں کھڑی ہو جاتی ہے اور چھپنے کے لئے جگہ دیکھتی ہے۔ آخر دوڑ کر دائیں ہاتھ کے ورلے دروازے کے پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے ۔ ( بختیار داخل ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں ایک جڑاؤ انگشتری ہے۔)

 بختیار:               بادل گرج چکتا ہے تو میٹھا پانی برستا ہے، کتنا بڑا ہیرا۔ کس قدر عمدہ تراش!

                        ( سلیم سوچ میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا داخل ہوتا ہے)

سلیم:                کیا سوچ رہے ہو تم ؟ یقیناًً ظل الٰہی کی فہمائش سے تم آزردہ نہیں ہوئے؟

            آزردہ نہیں نہ؟ وہ تمہارے باپ ہیں اور وہ باپ جو تمہارے لئے متحد ہندوستان کی سلطنت تیار کر رہے ہیں اور اگر اس کے لئے وہ تمہیں بھی ایک خاص رنگ میں دیکھنے کی توقع رکھیں تو قابل الزام نہیں۔ نہیں نہ سلیم ؟ اور کیا قصور تمہارا نہ تھا؟ پھر بھی ان کی الفت دیکھو انھوں نے تمہارے لئے یہ تحفہ بھیجا ہے۔ دربار میں جو فرنگی جو ہری آئے ہیں انہوں نے اپنے ملک کے ڈھنگ پر اس انگشتری کا نگینہ تراشا ہے۔ دیکھو تو کتنا بڑا، کس قدر خوبصورت، لاؤ میں تمہیں پہناؤ (ہاتھ پکڑ کر انگشتری پہنا دیتا ہے ) تم تو ویسے ہی خاموش ہو!

سلیم :                میں کچھ اور سوچ رہا ہوں بختیار۔

 بختیار:               کیا؟

سلیم؛                میں واپس آرہا تھا تو مجھے راستے میں ثریا ملی۔

بختیار:               پھر؟

سلیم:                اس نے کہا ، انار کلی آج کل چاندنی راتوں میں باغ میں جاتی ہے۔

بختیار:               تو ؟

سلیم :                میں آج باغ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں (مسند پر بیٹھ جاتا ہے)

بختیار:               محبت نے تم کو بالکل دیوانہ بنا دیا ہے سلیم ۔ باپ کی اتنی خفگی اور اتنی ذراسی دیر میں پھر اتنی بڑی جرأت ۔

سلیم:                ہاں لیکن چاندنی راتیں پھر نہ رہیں گی۔

بختیار:               (سلیم کے سامنے مسند پر بیٹھ کر ) تم کیوں انارکلی سے ملنا چاہتے ہو سلیم ؟ اگر تمہیں معلوم ہو گیا وہ بھی تمہیں چاہتی ہے تو تمہارے لئے وقت کاٹنا  قیامت نہ ہو جائے گا ؟

سلیم:                اور اب یہ معلوم ہو کہ تنہائی میں اس سے مل لینے کا موقع بھی ہے میں اگر نہ ملا ،تو جینا عذاب نہ ہو جائے گا؟ ( دونوں اپنے اپنے فکر میں سر جھکا لیتے ہیں۔ ) ( ولا رام پردے میں سے جھانکتی ہے اور دونوں کو غافل دیکھ کر دبے پاؤں باہر نکل جاتی ہے۔ جب وہ گزر چکتی ہے تو )

بختیار:               (چونک کر ) کون؟

سلیم :                (ادھر ادھر دیکھ کر ) کوئی نہیں۔

بختیار:               (جس دروازے سے دلارام باہر نکلی ہے اس کی طرف اشارہ کر کے) دیکھو پردہ ہل رہا ہے۔

سلیم:                ہوا ہے۔

بختیار :               نہیں کو ئی با ہر گیا ہے

(سا دونوں بھاگ کر دروازے کی طرف جاتے اور دائیں بائیں دیکھتے ہیں کوئی نظر نہیں آتا )

   


Post a Comment

0 Comments