Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Kaleem Daulatabad Mein-Taubatan Nasooh|کلیم دولت آباد میں ( توبتہ النصوح)

 

کلیم دولت آباد میں ( توبتہ النصوح)
ڈپٹی نذیر احمد
 Kaleem Daulatabad Mein (Taubatan Nasooh)
Deputy Nazir Ahmad

Kaleem Daulatabad Mein (Taubatan Nasooh)


مندرجہ ذیل اقتباس  مولوی نظیر احمد کی ناول توبۃ النصوح سے ماخوذ ہے۔ یہ اقتباس ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد کے بی۔اے، بی۔ایس سی، بی۔کام اردو زبان دوّم میقات دوّم کے نصاب میں شامل ہے۔


یہ ایک چھوٹی سی ہندوستانی ریاست ہے ؛البتہ کوئی پانچ چھ لاکھ روپیہ سال کا محاصل اس میں ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک نو جوان ، نا تجربہ کار، مسند نشین ہوا۔ خوشامدی صلاح کار، لچّے  مصاحب موقع پا کر آ جمع ہوئے اور دولت آباد کو چھوٹا لکھنؤ بنا دیا۔ جہاں جہاں اس مذاق کے لوگ تھے، سب کو فری میشن کی طرح ریاست دولت آباد کے حالات معلوم تھے۔ کلیم بھی سن سن کر دولت آباد کا ایسا مشتاق تھا، جیسے زاہد مرتاض جنت کا۔

 

 غرض کلیم دو منزلہ طے کرتا ہوا دولت آباد پہنچا اور قبل اس کے کہ کسی سے تعارف پیدا کرے، اس نے اپنا سامان ظاہر درست کر ، پھر ایک سرائے میں امیری ٹھاٹھ لگا دیئے ۔ مدح رئیس میں قصیدہ تو اس نے سفر ہی میں کہنا شروع کر دیا تھا، صرف عرض حال اور قطعہ دعائیہ باقی تھا، جلدی جلدی تمام کر ، اسی قصیدہ کو ذریعہ تقریب قرار دے، درِ دولت پر جا حاضر ہوا۔ مگر شامت اعمال اور باپ کی ناخوشی کا وبال، اس کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس کے دولت آباد میں پہنچنے سے چند روز پہلے یہاں بساط الٹ چکا تھا۔ بدنظمی ریاست کی خبریں صاحب رزیڈنٹ کو پہنچیں اور انہوں نے بذات خاص دولت آباد پہنچ کر رئیس سے کل اختیارات منتزع کر، امور ریاست کا اہتمام ایک کمیٹی کو تفویض کیا ، جس میں ریاست کے چند قدیم نمکخوار تھے کہ وہ رئیس کے بے اعتدالیاں دیکھ کر ترک خدمت کر کے گھر بیٹھ رہے تھے ، اور اس کمیٹی کے میر مجلس انتظام الدولہ مرفہ الملک نواب بیدل خان بہادر والی عافیت نگر قرار دیے گئے کہ وہ رشتے میں رئیس دولت آباد کے ماموں بھی ہوتے تھے ۔ اور ان کا حسن انتظام ان اطراف میں ضرب المثل تھا اور خود صاحب رزیڈنٹ بہادر بھی بلاناغہ ماہ بماہ اپنی شرکت سے کمیٹی کی آبرو افزائی کیا کرتے تھے۔ رئیس کو مصارف ضروری کے لیے کمیٹی سے دست برداشتہ کچھ روپیہ ملتا تھا۔ نابکار مصاحب ایک   ایک کر کے نکالے جاچکے تھے۔

 

غرض جس چاٹ پر کلیم دوڑا آیا تھا ، وہ بات اب باقی نہ تھی۔ نا واقفیت کی وجہ سے کلیم نے اندر اطلاع کرائی، تو فوراً صدا کی طرح طلبی آئی۔ یہ تو اس توقع سے خوشی خوشی اندر گیا کہ بانکے، ٹیڑھے، رنگیلے، سجیلے، وضعدار لوگ دیکھنے میں آئینگے ۔ مگر جا کر دیکھتا ہے تو بڑے بڑے ریشا ئیل مولوی ، پگڑ اور عمامے باندھے بیٹھے ہیں۔ کوئی درس دے رہا ہے، کوئی کتاب دیکھ رہا ہے، کوئی اور اد میں مصروف ہے ۔ اندر قدم رکھتے ہی کلیم نے یہ برجستہ مطلع پڑھا:

جاتے تھے جستجو بتخانہ وصنم میں

بہکے، تو جا کے نکلے ہم بھی کہاں حرم میں

مولویوں کی شکل دیکھ کر قریب تھا کہ کلیم اس طرح بھاگ کھڑا ہو، جیسے لاحول سے شیطان ۔ مگر اس کو خیال ہوا کہ امیروں کے کارخانے ہیں ۔ عجب کیا ہے کہ یہ کوئی خانقاہ ہو

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے

چلو ذرا حال تو دریافت کریں۔ بارے، قریب جا کر اس نے ایک پیر مرد کو مجرا عرض کرتا ہوں کہہ کر، اپنی طرف متوجہ کیا۔ لفظ مجرا سن کر ان بزرگ کے کان کھڑے ہوئے اور فوراً آنکھ سے عینک اتار سیدھے ہو کر کلیم کو دیکھنے لگے، تو اس نے زائد از رکوع جھک کر ان کو سلام کیا، یعنی اپنا مجرا دکھایا ۔ اس بزرگ نے فرمایا۔ وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهٗ مِنْ اَيْنَ اَنْتَ فِي اِرْ فَالِكَ أَحْسَنَ اللَّهُ بِحَالِكَ ؎

کلیم:      حضرت قبلہ میں فہم عربی سے قاصر ہوں۔

مولوی صاحب  :  کہاں سے اتفاقِ محبئی  ہوا۔

کلیم:     دہلی سے۔

مو لوی صاحب :  تقریب؟

کلیم :     امتحان بخت اور آزمائش نصیب۔

مولوی صاحب :  علم وعمل؟

کلیم :     مدحت طرازی ارباب دول ۔

صاحب :            غرض و غایت؟

کلیم :     تحصیل جاہ و ثروت ۔

تب اس بزرگ نے مختصر طور پر کلیم کو وہاں کے حالات سے مطلع کر دیا، اور کہا کہ رئیس لاشے محض ہے وہ بھی لا بشرط شے نہیں، بلکہ بشرط لاشے اور بے اجازت خاص حضرت مو لا نا  صدر اعظم کے کسی کو اس تک پہنچنے کا امکان نہیں۔

کلیم:     صدر اعظم صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟

مو لوی صا حب :  دیکھو یہیں کہیں ہونگے ۔

مو لو ی صاحب:  ان کی شناخت؟

مولوی صاحب:  سِيْمَا هُمْ فِیْ وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ

کلیم :     میں نہیں سمجھتا۔

مولوی صاحب :  ایک بڑھےمنخی  سے آدمی ہیں۔ نیلی لنگی اوڑھے ہوئے، حجرۂ شمالی کے صحن میں طلبہ کو درس دے رہے ہونگے یا فصل خصومات میں مصروف ہو نگے ۔

کلیم :     ان کو کیا خدمت ہے؟

مولوی صاحب :  جیسے حرف ندا لفظ ادعوا کا قائم مقام ہوتا ہے، اسی طرح مولانا صاحب ادام اللہ فیوضہم نائب الرئیس ہیں۔

کلیم:     میں ان کی خدمت میں جا سکتا ہوں؟

مولوی صاحب :  لا باس بہ

 

 غرض کلیم صدر اعظم صاحب کی خدمت میں گیا، تو وہ اس کی نظر میں کچھ بھی نہ جچے  ۔ یہ سمجھا تھا کہ وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں، تو بڑے کرّوفر کے ساتھ ہو نگے ۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ولایتی نما ایک بڈھے سے مولوی ہیں۔ وراثت کا ایک جھگڑا ان کے رو برود در پیش ہے، اور پیچھے اپنے ہاتھ سے، حساب مناسخہ لگا رہے ہیں۔ کلیم کو ایک اجنبی صورت دیکھ کر انہوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں سے فارغ ہوں ، تو آپ سے بات کروں ۔ جب تک مقدمہ پایش رہا، کلیم غور سے دیکھتا اور سنتا رہا۔ مولوی صاحب بلا کی موشگافیاں کر رہے تھے ۔ جب تو کلیم نے سمجھا واقع میں یہ آدمی بڑے پایہ کا ہے اور منصب وزارت کے قابل ہے۔ بارے جب مقدمہ پیش ہو چکا، تو صدراعظم صاحب کلیم کی طرف مخاطب ہوئے کہ ’’ہاں، حضرت فرمائیے‘‘۔

کلیم:     بندہ ایک غریب الوطن ہے، رئیس کی جود وسخا کا شہرہ سن کر مدت سے مشتاق تھا۔ یہ حال ہے ۔ باقی میری صورت سوال ہے۔

صدر اعظم:        آپ کی سماعت صحیح ،لیکن اگر چہ جود صفت محمود ہے، مگر اعتدال شرط ہے۔ شامت اسراف سے غنی باقی نہ رہا۔ فرنگیوں حفظ ریاست کی نظر سے رئیس کو ممنوع التصرفات ، مسلوب الاختیارات کر رکھا ہے۔

کلیم:     میں طالب گنجینہ نہیں ، سائل خزینہ نہیں:

صدف کو چاہیے کیا، ایک قطرہ چشمہ یم سے

بجھا لیتا ہے اپنی پیاس کا م غنچہ شبنم سے

 

 کلیم نے اس طرح کڑک کر بیدھڑک شعر پڑھا کہ تمام حاضرین اس کی یہ حرکت خارج از سیاق ادب دیکھ کر متعجب ہوئے ۔ صدر اعظم صاحب کا منصب، ان کا علم و فضل ، ان کی پیری اور ہیبت ، جو ان کی تہذیب کو لازم تھی یعنی صدر اعظم صاحب کی حالت مجموعی اور اس سے قطع نظر خود کلیم کی حالت سے اس کی مقتضی تھی کہ وہ پاس ادب ملحوظ رکھتا۔ مگر وہ ایسی ہی بیبا کی کو کچھ ہنر لسانی اور صفت حاضر جوابی سمجھتا تھا۔ شعر اس کا تکیہ کلام تھا ۔ بات کہتا تو مقفیٰ ۔ کلام کرتا تو موزوں، گفتگوے روز مرہ میں بھی اس کی یہی کیفیت تھی اور جو کوئی کبھی اس کو ٹو کتا تو وہ جواب دیتا کہ

شاعری تو شعار ہے اپنا

کلیم کو صدراعظم کے حضور میں بیباکانہ شعر پڑھتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوئی ۔لیکن جو  امران کی حیرت کا موجب تھا، وہی ان کوکلیم  کے روکنے اور باز رکھنے سے بھی مانع تھا یعنی صدراعظم صاحب کی ہیبت لوگوں سے زیادہ صدراعظم صاحب کو حیرت ہوئی ہوگی۔ مگر ان کی تہذیب اس درجہ کی تھی کہ انہوں نے کلیم کونظر بھر کر بھی تو نہیں دیکھا، اظہار ناخوشی وناپسندیدگی تو بڑی  بات ہے۔

 صدر اعظم:        رئیس سے تو توقع عبث ہے، مگر انتظام جدید در پیش ہے۔ اگر میں سمجھوں کہ کوئی خدمت آپ انجام دے سکینگے : تو انشاء اللہ مجلس شوری میں جس کو لوگ کمیٹی منتظم ریاست کہتے ہیں، آپ کے استحقاق پیش کر دیے جائینگے اور غالب ہے کہ کوئی خدمت آپ کو مفوض ہو جائے ۔ متعدد مناصب خالی ہیں ۔ خصوصاً انتظام فوجداری حدود ریاست میں ۔

کلیم:     چندے حضور مجھ کو اپنی خدمت خاص میں رکھیں۔ اور اس نالائق کی ہنر مندی اور بے ہنری حضور پر منکشف ہو جائے۔ پھر جس خدمت کے لیے ارشاد ہوگا، بسر و چشم اس کو بجالائیگا ، اگر چہ خدمت فوجداری ہی کیوں نہ ہوں ؎

طالب ہوں علم کا کہ علم سے ہے ہم رقم

نیزہ سمجھ کے لیتا ہوں میں ہاتھ میں قلم

 

صدراعظم :        فرنگیوں نے جو انتظام کیا ہے ، وہ ایسی تنگ ورزی کے ساتھ کیا ہے کہ اس میں بہت تھوڑی گنجائش ہے۔ پس قبل اس کے کہ میں آپ کو اپنے پاس کی کوئی خدمت دوں ، مجھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس کام کی انجام دہی پر قدرت رکھتے ہیں۔

کلیم:     بقول غالبؒ

آج مجھ سا نہیں زمانے میں

شاعر نغز گو و خوش گفتار

صدر اعظم:        لیکن انتظام جدید کے مطابق ریاست میں کوئی خدمت شاعری باقی نہیں۔

گرسخن  گو نہیں تو خاک نہیں

سلطنت ہے عروس ِبے زینت

صدراعظم :        جو کچھ آپ سمجھیں۔

کلیم:     لیکن ریاست پر کیا منحصر ہے، حضور بھی تو وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں۔ آپ کی سرکار میں کیا کمی ہے؟

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر !

صدراعظم:        نَعُوذُ بِاللہ ِ مِنْ اٰفَاتِ الْلِسَان میں بیچارہ نام کا نائب الرئیس اور وزیر ہوں ، ورنہ فی الحقیقت ایک ذرہ ٔحقیر ہوں۔

کلیم:     یہ حضور کا کسر نفس ہے بقول ظہوری؎

 

سر خدمت بر آستان دارد

پارے رفعت بر آسمان دارد

میں بھی اس بلا دِدور دست اور دیار اجنبی میں اتفاق سے آنکلا ہوں۔ اور میں دیکھتا ہوں ، تو آپ کی سرکار با اقتدار میں ایک شاعر کی ضرورت بھی ہے۔ جو آپ کے محامد اوصاف کو مشتہر کر کے خیر خواہان دولت کو راسخ العقیدت اور دشمنان روسیاہ کو مبتلاے ہیبت کرتا رہے۔

 صدر اعظم :       یہ آپ کی کریم النفسی ہے ورنہ من آنم کہ من دانم ۔ مجھ کو اگر ضرورت ہے، تو ایسے شخص کی ہے ، جو مجھ کو میرے عیوب پر مطلع کرے۔

کلیم:     اگر مدح وستائش پسند نہیں ہے، تو بندہ وصل و ہجر وشوق وانتظار و ناز و نیاز واسوخت ور باعی و تاریخ و جمع و چیستان و معاملہ  بندی و تضمین ومحاکمہ ورزم وبزم و تشبیہ واستعارات و تجنیس ، تمثیلات وسراپا ہر طرح کے مضامین پر قادر ہے۔ جو طرز مرغوب طبع ہو، اسی میں طبع آزمائی کریگا ؎

رکھتا اگر چہ عیب تعلّی سے عار ہوں

بس مغتنم ہوں ، منتخب روزگار ہوں

صدر اعظم:       آپ کے ہنرمند، بینظیر و بے مانند ہونے میں شک نہیں ،لیکن افسوس ہےکہ مجھ کو اس فن کی طرف رغبت نہیں۔

کلیم:                 حضور جیسے عالم با کمال کا ایسے فن شریف سے

 کہ ہم حفظ نفس است و ہم قوت مدح

رغبت نہ رکھنا۔ میری قسمت کی نارسائی ہے

صدراعظم :        اگر چہ میں اپنے نفس میں انواع واقسام کی خباثتیں پاتا ہوں، لیکن خداوند کریم کا اتنا شکر گزار ہوں کہ اب تو خیر ، ایسی باتوں سے محتر زرہنے کی میری عمر ہی ہے، عنفوان شباب میں بھی خدا کے فضل سے میں ایسی باتوں کو نہایت نا پسند کرتا تھا۔

کلیم:     سبب کیا، وجہ کیا ، موجب جہت کیا ؟

صدراعظم :        جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ایسے مضامین میں اشتغال وانہماک رکھنے سے ذہول وغفلت، استخفاف معصیت، استحسان لہو ولعب، اختیار مالا یعنی کے سواے کچھ اور بھی حاصل ہے؟

کلیم:     اب اس خصوص میں کچھ عرض کرنا سوء اِدب ہے ۔ وہی خدمت فوجداری مجھ کو تفویض فرمائی جائے۔

صدر اعظم :        مجھ کو کچھ عذر نہیں ، مگر آپ مجھ سے استشارہ کریں، تو بحكمِ الْمُشْتَشَارُ مُوْتَمَنُّ میں صلاح نہیں دے سکتا، اس واسطے کہ رئیس کے ضعف حکومت  نے ان ٹھاکروں کو جو مستقر الریاست سے دور رہتے ہیں، ایسا عسیر الانقیاد کر رکھا ہے کہ کوئی قسط ہے جنگ و جدال وصول نہیں ہوتی ، اور ملازمان فوجداری کو ہمیشہ ان کے ساتھ معرکہ آرائی کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے ذمہ ریاست کے حقوق سوابق نعمت ثابت نہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ ابتدا ءا یسی خطرناک خدمت اختیار کی جائے۔

کلیم:     حالت اضطرار کو کیا کیا جائے؟

صدراعظم:        اگر اضطرار ہے، تو میں روپے ماہانہ کا جمع خرچ نویس مداخل ایک منصب جدید ہونے والا ہے۔ چندے آپ اس پر قناعت کریں۔ میرے نزدیک کنج عافیت کے یہ بیسں فوجداری کے پچاس پر ترجیح رکھتے ہیں۔

کلیم:     یہ حضور کی مسافر نوازی ہے ،لیکن بند ہ  اس خدمت سے معاف رکھا جائے۔ہر کسے را بہر کارے ساختند

یہ کچھ لالہ بھائیوں ہی کو زیبا ہے۔

صدر اعظم:        اتماماً للحجتہ  پھر آپ سے کہتا ہوں کہ جس خدمت کے آپ خواستگار ہیں فی نفسہ خصوصا اس وقت میں محل خطر ہے ۔

 کلیم:     از خطر نیندیشد ہر کا ہمتش عالی است

صدر اعظم:     اچھا تو آپ مآل ِکار کی نسبت تاملِ صحیح کر لیجئے۔ پھر دیکھا جائیگا۔

غرض کلیم صدر اعظم سے رخصت ہو کر اپنی جگہ واپس آیا۔ مگر حصول مطلب سے مایوس، صدراعظم سے بد عقیدت، یہاں سرائے میں بعض لوگوں نے اس سے صدراعظم سے ملاقات کی کیفیت پوچھی ، تو اس نے نہایت حقارت سے کہا: " اجی بس ، شعر فہمی  عالم بالا معلوم شد - آوازیل دوز چوں دم بر داشتم، مادہ خر بر آمد، کو ڑمغز، جسد بے روح ، جماد بے حس، افسردہ، دل مردہ ع  

سگ نشیند بجاے گیپائی

زمانہ ناہنجار کے انقلاب دیکھیے ۔ ایوان ریاست کیا فتحپوری  کی مسجد ہے۔ اگر چہ کلیم کو ایسی دل برداشتگی بہم پہنچی تھی کہ وہ کسی طرح ایسی ریاست کی نوکری پسند نہیں کرتا تھا۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ اس کے پاس اتنا خرچ نہ تھا کہ کسی دوسری جگہ کا قصد کرے ۔ حاجت اس کو صدراعظم کے پاس جانے پر مجبور کرتی تھی مگر مخالفت راے اس کو مانع ہوتی تھی ، یہاں تک کہ اسی حیص بیص میں پورے دس دن گزر گئے ۔ اور کمیٹی منتظم ریاست کے انعقاد کا وقت آ پہنچا لیکن اس بندہ ٔخدا نے صدراعظم کی طرف رخ نہ کیا۔ بارے ، یکا یک ،نہیں معلوم ، کیا خیال اس کے دل میں آیا کہ سپاہیانہ لباس پہن ، ہتھیار لگا، مونچھوں پر تاؤ دے، خدمت فوجداری کا امیدوار بن کر کمیٹی کے رو برو جا کھڑا ہوا۔ آدمی تھا ماشاء اللہ وجیہ اور اس پر لسّان، ایک دم سے فوج کا کپتان مقرر ہو گیا۔ شاعروں کو ایک پھٹکار یہ ہوتی ہے کہ اکثر خود پسند ہوتے ہیں کیونکہ ہمیشہ تعریف و آفرین اور دادو تحسین کے امیدوار رہتے ہیں۔ کلیم بھی اس مرض میں مبتلا تھا۔ اب جو اس کو دفعتہًً منصب کپتانی مل گیا ، تو اس کی نخوت کو تائید مزید پہنچی ۔ بقول میرؔ

سمند ناز پر اک اور تازیانہ ہوا

جب دیکھو، اردلی میں دس پندرہ سوار شہر میں گھوڑے کھاتے پھر رہے ہیں۔ چار پانچ مہینے کلیم نے بڑے چین میں گزار دیے اور چونکہ باپ کو چھیٹر نامنظور تھا، دہلی میں دوست آشناؤں کے پاس کپتان صاحب کے خط پر خط چلے آتے تھے ۔ یہاں تک کہ زور آور سنگھ ایک ٹھا کرنے اپنے علاقے کی قسط وقت پر نہ ادا کی ۔ تنگ طلبی ہوئی ، تو وہ پھر بیٹھا۔ اس کی سرکوبی کے واسطے دولت آباد سے فوج روانہ ہوئی۔ اس میں کلیم بھی تھا۔ جوانی کی عمر،نئی  نئی نوکری ، مزاج میں بیبا کی اور تہوّر پہلے ہی حملے میں میاں زخمی ہوئے، تو کیسے سخت کہ دستم بخیر گھٹنے کی چینی پر گولی بیٹھی ، توبُنِ ران تک اندر ہی اندر تیرگئی ۔ نہیں معلوم، نسوں میں کس طرح کا تعلق خداے تعالیٰ نے رکھا ہے کہ ایک پانوں کے مجروح ہونے سے سارے کا سارا دھٹر بیکار ہو گیا۔ قاعدہ فوج کے مطابق میدان  جنگ سے لو تھ کو اٹھا کر دار الشفا میں پہنچایا۔ جراحوں نے زخم کو دیکھا ،تو ایسا کاری پایا کہ فورا پانوں کا ٹنا لازم آیا۔ اگر چہ اس وقت تک جراحوں نے پانوں کو جان کا فدیہ تجویز کیا ،لیکن کلیم بیچارہ ناز و نعمت کا پلا ہوا تھا، اس صدمہ کا متحمل نہ ہو سکا اور روز بروز اس کی حالت ردی ہوتی گئی۔تپ آنے لگی۔ زخم بگڑا۔ ناسور پڑے۔ اتنا بڑا ڈھؤ جوان ایک ہی مہینے میں گھل گھل کر پلنگ سے لگ گیا۔ جب پانوں کی طرح اس کی زیست کی امید منقطع ہو گئی، تو نا چار لوگوں نے کو دہلی میں پہنچانے کی صلاح کی اور یہ بھی خیال ہوا کہ گھر کے جانے کی مسرت اور تبدیل آب و ہوا کی فرحت سے عجب نہیں کہ اس کے دل کو تقویت پہنچے۔ صدر اعظم صاحب حسبتہ  اللہ متکفل مصارف ہوئے اور دولت آباد سے دہلی تک برابر کہاروں کی ڈاک بیٹھ گئی ۔ کلیم دہلی میں پہنچا تو گوراہ میں انیس بیس  کا فرق اس کی حالت میں ہو گیا تھا، مگر نا توانی اس درجہ کی تھی کہ رات دن میں سات پہر بیہوشی میں گزرتے تھے ۔ جب کہاروں نے اس کی ڈولی نصوح کے دروازے پر جا اتاری ، تو اس پر غشی طاری تھی۔ نصوح بالا خانے پر مصروف عبادت تھا۔ پہلے زنا نخانے میں خبر ہوئی۔ فہمیدہ بیتاب ہو کر بے حجاب باہر نکل آئی، جو پالکی کے پٹ کھول کر دیکھا تو بیٹے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس طرح بلک کر روئی کہ سننے والوں کے کلیجے دہل گئے۔ فہمیدہ نے اس بیقراری میں جو بین کیے، ان کے لکھنے سے پہلے قلم کا سینہ شق ہے اور چشم دوات سے اشک جاری ہیں۔ خلاصہ یہ کہ فہمیدہ کے قلق واضطراب نے محلے میں حشر برپا کر دیا۔ اگر چہ نصوح گریہ و بکا کی آواز سن کر کھٹکا تھا مگر وہ اس طرح کا مستقل مزاج ، ضابط آدمی تھا کہ اس ترتیل کے ساتھ معمول کی تلاوت کو پورا کیا اور اس کے بعد نیچے اتر کر باہر پالکی کے پاس آیا  فہمیدہ کا رونا سن کر اور بیٹے کی ردی حالت دیکھ کر بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو چلے جاتے تھے اور بار بار ٹھنڈی ٹھنڈی سانس بھرتا تھا۔ مگر نہ کچھ بو لتا تھا ، نہ چلتا  تھا۔ آدھ گھنٹے کامل اس کی یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا: اِنَّا للہ ِوَاِِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ ِالْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اِنَّمَا أَشْكُوْا بِثّیْ وَحُرْنِیْ اِلَى اللهِ اللَّهُمَّ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا اللَّهُمَّ هَون عَلَيْهِ سَكْرَاتِهِ وَكَفَّرْعَنْهُ سَيِّاٰتِهِ.

اس کے بعد بی بی کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں تم کو رنج کرنے سے منع نہیں کرتا۔ تمہارا رنج ایک اقتضائے طبیعت ہے کہ انسان اس میں مجبور ہے لیکن مجھ کو تمہارا اضطرار دیکھ کر اس بات کو خوف ہوتا ہے کہ مبادا تمہارے خیالات منجر بکفر ان ہو جائیں۔ اگر مصیبت کے وقت انسان کے دل میں نعوذ باللہ ہوےنارضامندی بھی خداوند بے نیاز کی طرف سے پیدا ہو، تو پھر کہیں اس کا ٹھکانا نہیں ۔ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ ط ذلِكَ هُوَ الخَسْرَانُ الْمُبِينُ کیا ہم نئے آدمی اور یہ انوکھی مصیبت ہے !بزرگان دین پر اس سے کہیں زیادہ مصیبتیں نازل ہوئیں، زندہ دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیئے گئے ،سر پر آرے چلے، سولی چڑھے ،قتل ہوئے، قید رہے، ماریں پڑیں، کوڑے سہے ، گالیاں کھائیں، بیگاریں بھگتیں، ذلتیں اٹھائیں ، رسوائیاں جھیلیں ، مگر خدا ان کو جزائے خیر دے! کیسے بچے بندے تھے کہ رضا و تسلیم کے حبل متین کو ہاتھ سے نہ دیا۔ یہ کچھ مصیبت، اور دل برضا جوئی حضرت ربوبیت ! یہ کچھ ایذا اور زبان سپاس گزارمنت ۔ شکر کا مقام ہے کہ خدا وند کریم نے ہمارے ضعف پر رحم فرما کر امتحان سخت میں مبتلا نہیں کیا۔ اگر بندہ صرف یسر و رفاہ کی حالت میں خدا سے راضی ہے اور تکلیف واذیت میں شا کی ،تو وہ بندہ، بندۂ خدا نہیں، بلکہ بندۂ غرض اور مطلب پرست ہے۔ اے بی بی !رنج کرو لیکن صبر کے ساتھ اور مصیبت پر روؤ، مگر شان عبودیت لیے ہوئے۔ دنیا میں جتنی ایذا اور جتنی مصیبت ہے، پاداش گناہ ووبال معصیت ہے۔ اس واسطے تو بہ واستغفار کو لکھا ہے کہ اس سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں ۔ سب سے بہتر ہمدردی جو ہم اس شخص کی اس تباہ حالت میں کر سکتے ہیں۔ یہ کہ اس کے گناہوں کی معافی کے لیے خداوند کریم کے حضور میں بمنت و سماجت دعا کریں۔ شخص ،تم بھی اس بات کو تسلیم کروگی ، اپنے ہاتھوں اس نوبت کو پہنچا کہ جو اس کو دیکھیگا ، باقتضاے انسانیت تاسف کر دیگا۔ میں تم سے سچ  کہتا ہوں ، تمام دنیا کا رحم خدا کی رحمت کا ملہ کے آگے ہزارواں ، لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے۔ اگر چہ ہم لوگوں کے دیکھنے میں اس کی حالت بہت ہی زبون ہے، لیکن کوئی شخص اس سے بڑھ کر خوش قسمت نہیں ، اگر اس کی یہ تکلیفیں عند اللہ اس کے گناہوں کا کفارہ سمجھی جاتیں ۔ نصوح کے وعظ کا سحر حلال ایسانہ تھا کہ کوئی اس کو سنے اور متاثر نہ ہو، فہمید و فورا منہ پونچھ سیدھی ہو بیٹھی اور اب میاں بی بی لگے آپس میں صلاح کرنے کہ کیا کیا جائے؟

نصوح:              اس کو محلے کے شفا خانے میں پہنچا دینا چاہیے۔ ہر وقت ڈاکٹر کے پیش نظر رہیگا۔ مکان بہت پر فضا ہے، اس کی طبیعت کو بھی تفریح ہوگی۔

فہمیدہ :              ہے ہے، اور میرا دل کیونکہ صبر کریگا؟

نصوح :             تمہارا یہ کہنا بھی واجب ہے۔ مگر بیمار کی حالت ایسی ردی ہے کہ کسی وقت اس سے طبیب کا مفارقت کرنا مناسب نہیں۔

فہمیدہ :              حکیم جی شوق سے آئیں جائیں، میں سہ دری میں پردہ کیے بیٹھی رہونگی۔

نصوح:             زخموں کا علاج کچھ ڈاکٹروں ہی سے خوب بن پڑتا ہے۔ یونانی طبیب تو اس کوچے سے محض نابلد ہیں۔ رہے جراح، ان کو دو چار مرہم ضرور معلوم ہیں ، مگر تشریح سے جیسے یونانی طبیب بے خبر ، ویسے ہی جراح نا واقف بہتر ہوگا کہ اس کو نعیمہ کے گھر لے چلیں ۔ سرکاری شفاخانہ بھی قریب ہے۔ اور میاں عیسٰی کہ اس وقت ہندوستانی جراحوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ، دیوار بیچ ان کا گھر ہے۔

فہمیدہ نے بھی اس صلاح کو پسند کیا۔ اور کیسا سامان، کس کی تیاری، گھر کا گھر کلیم کی پالکی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ یہاں سے کوئی چھ سات پیسے ڈولی نعیمہ کی سسرال تھی ۔ کہاروں نے پالکی اٹھائی ، تو کہیں کا ندھا تک نہیں بدلا ، دھر نعیمہ کے گھر جا اتاری۔

یاد ہو گا کہ نعیمہ ماں سے لڑ کر بے ملے صالحہ کے ساتھ خالہ کے یہاں چلی گئی تھی۔ پھر چار مہینے وہاں رہی ۔ نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی برکت سے خدا نے اس کو ہدایت دی اور وہ بھی نیک بن گئی۔

سگ اصحاب کہف روزے چند

پے نیکاں گرفت ومردم شد

نیک بنے پیچھے، ممکن نہ تھا کہ وہ ماں باپ کی نارضامندی گوارا کرتی ۔ اس نے ماں باپ کو شاد اور خدا نے اس کو اپنے گھر میں آباد کیا۔ اس کو سسرال گئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم کو چار کہاروں کے کندھوں پر لاد کر اس کے گھر لے گئے ۔ چونکہ نعیمہ کے گھر آباد ہونے کا تذکرہ آ گیا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نعیمہ کا حال لکھا جائے اور کلیم کو جو دنیا میں اب مہمان چند روزہ ہے، پیچھے دیکھ لیا جائیگا۔

 

 

 

Post a Comment

0 Comments