Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Rustam wo Suhrab By Aagha Hashr Kashmiri|رستم و سہراب-آغا حشر کاشمیری

 

رستم و سہراب
آغا حشر کاشمیری
Rustam wo Suhrab By Aagha Hashr Kashmiri
(قلعۂ سفید کا پھاٹک )

( ایران و توران کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے۔ سہراب تو ران کا سپہ سالار ہے۔ میدان جنگ میں اس کی افواج کو فتح ہوتی ہے اور وہ قلعۂ سفید پر جا پہنچتا ہے۔)

سہراب :            تم قلعۂ سفید کے محافظ ہو؟

ہجیر:                  ہاں!

سہراب:            تمہارا نام؟

سہراب :            قلعۂ سفید کے حاکم کا نام کیا ہے؟

ہجیر:                  کثر دھم

سہراب :            اگر قید کی زندگی کو، جس کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی ہے ، آزاد زندگی میں بدلنا چاہتے ہوں۔ تو تنبیہ آمیز خط لکھ کر انجام سے غافل کثر دھم کو آگاہ کر کہ خوفناک مستقبل تباہی و بربادی کے جلوس میں قلعہ کے پھاٹک کے سامنے پہونچ گیا ہے۔ اس لئے رحم و معافی حاصل کرنے کے لئے میرے حضور میں نذرانہ اطاعت پیش کرے۔

ہجیر:                  قویٰ کے ساتھ میری قوت حافظہ بھی ضعیف ہوگئی ہے۔ اس لئے عمر کے آخر دنوں میں غداری کا سبق یاد نہیں کر سکتا !

سہراب:            یعنی!

ہجیر:                  زمین پر رینگتے ہوئے حقیر کیڑوں کی طرح صرف حرکت کرنے اور سانس لینے کا نام زندگی نہیں ہے۔ آزادی اور اختیار سے محروم ہو کر پامال گھاس کی مانند جینا انسانیت کی   موت ہے، میری تمنا ہے کہ میرے اہل وطن جئیں لیکن غلام بن کر نہیں ، آقا بن کر، کتے کی طرح نہیں ، شیر کی طرح!

سہراب:            کثر دھم کو خط لکھ کر تسلیم شکست کا مشور ہ دینا ہی تیری طرف سے اس وقت ملک کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ تیرے انکار نے ثابت کر دیا کہ تو سخت بیوقوف ہے۔

(مردانہ لباس میں گرد آفرید داخل ہوتی ہے)

گرد آفرید:         ایران کی تاریخ، انسانیت اور شرافت کی سنہری کتاب، بزدلی اور ذلت کا افسانہ نہیں ہے۔ ایران اپنی علمی ، اخلاقی ،تمدنی اور جنگی قوتوں کے سامنے دنیا کا سر جھکانے کے لئے پیدا ہوا ہے، جھکنے کے لئے پیدا نہیں ہوا۔

سہراب :            اے ایرانی جو ان !قسمت کے افق پر صبح کی پہلی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ پھر بھی احمق ایرانی ابھی تک زندگی کو شب راحت سمجھ کر دیر ینہ عظمت کا خواب دیکھ رہا ہے۔

گرد آفرید:         آفتاب کی عظمت و جلالت کا انکار اپنے بے بصر ہونے کا اقرار ہے۔ غرور کے مرض سے تیری بینائی مفلوج ہوگئی ہے۔ اب تیری نظر پلکوں کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی ۔

سہراب:            جنگ کا میدان شاعروں کی بزم خیالی، منطقیوں کی مجلس، فلسفہ کا مدرسہ نہیں ہے۔ اچھا ظاہر کر تو کون ہے؟ تیری موت کے بعد قلعۂٔ سفید میں کس نام سے تیرا ماتم کیا جائے گا ؟

گرد آفرید:       

دشمن نخوت، حریف شعلہ سامانی ہوں میں

بس ! مرا نام ونشاں یہ ہے کہ ایرانی ہوں میں

 

(طویل جنگ و شکست کے بعد گرد آفرید کے بال بکھر جاتے ہیں، سہراب حیرت زدہ ہو جاتا ہے)

سہراب یہ کیا ؟ مرد کے بھیس میں حسین عورت کی صورت ! رعنائی نسائیت کی جمیل ترین تصویر مردانہ مرقع ہیں !حسن کی دنیا کا ماہِ کامل زرہ بکتر کے بادلوں میں !موسم بہار کےتبسم  کی رنگینی جنگی نقاب میں !

گرد آفرید:         ( آه) اقبال مند سہراب ! مجھے امان دو

سہراب :            بہادر نازنین !حسن کے مقابلے میں ، ہمیشہ مرد کے غرور کی شکست ہوئی ہے۔

اٹھو یہ میری فتح نہیں تمہاری فتح ہے۔

گرد آفرید:        ( آہستہ ) کس قدر شریف ! جتنا چہرہ خوبصورت اتنا ہی دل

خوبصورت ! ( بلند آواز ) ہیں ! میں کدھر جارہی ہوں؟

سہراب:            فتحیاب حسینہ ! پنکھڑیوں کا دروازہ کھول کر باہر نکل آنے والی خوشبو کی طرح تم اپنی اصلی؎ شکل میں ظاہر ہو گئیں تو اب تمہیں اپنا نام ونشان بھی ظاہر کر دینا چاہیے۔ یہ میرا حکم نہیں بارگاہ حسن میں مؤدبانہ درخواست ہے۔

 گرد آفرید:        میں قلعۂ سفید کے حاکم کثر دھم کی بیٹی گرد آفرید ہوں ۔

سہراب:            اور ، اور جانتی ہو، میں کون ہوں؟

گرد آفرید:        جس گرد آفرید کی ہیبت سے بہادروں کی رگوں کا سرخ خون زرد ہو جاتا تھا تم اسےشکست دینے والے سہراب ہو۔

سہراب:            تمہاری نظر تمہیں مغالطہ دے رہی ہے۔ اس چہرے کی پرستش کے لئے اب میں نے نیا نام، نئی زندگی اختیار کی ہے۔

گرد آفرید :        ( آہستہ ) اس کی باتیں فردوسی نغمہ کیوں معلوم ہوتی ہیں۔ کیا میری روح میں کوئی تبدیلی ہورہی ہے؟

سہراب:            پیاری آفرید ! عرض تمنا کے جواب میں تمہاری ایک مختصر ” ہاں‘‘ عشق کی عقیدت مندی کا بہترین انعام ہے۔ میرے دل کو تحفہ محبت سمجھ کر قبول کرو۔

گرد آفرید:        ( آہستہ ) ایک نا معلوم جذبہ انتقام کے شعلوں کو سرد کئے دے رہا ہے۔ مگر نہیں! عظمت وطن کے قاتل کا جرم میں کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ (بلند ) سہراب ! تمہاری تلوار نے گرد آفرید کو فتح کیا تھا۔ لیکن تمہارے شریفانہ سلوک نے غیر مغلوب نفرت کو شکست دے کر، گرد آفرید کی روح کے ہر گوشہ اور دل کے ہر ذرے کو فتح کر لیا ہے۔ اجازت دو کہ قلعہ میں جا کر تمہارے شاہانہ خیر مقدم کی تیاریوں سے محبت کی بہشت تعمیرکروں۔

سہراب :            اب میں تمہاری مرضی کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ تمہارا حکم میری زندگی کا قانون ہے کیونکہ تم حسن کی سلطنت کی ملکہ ہو اور میں اس سلطنت کی وفادار رعیت ہوں۔

گرد آفرید:         اور تم، تم میرے دل کی دنیا کے بادشاہ ہو! ( دونوں جاتے ہیں)

(کچھ مدت کے بعد وہی قلعۂ سفید کا پھاٹک )

ہومان:              دنیا کے حربوں میں سب سے زیادہ خوفناک حربہ عورت کا حسن ہے۔

بارمان:              اور حسن ہی کا دوسرا نام عورت کی فتح ہے۔

ہومان:              یہاں بھی حسن و عشق کا معرکہ کارزار شروع ہو گیا۔

 بارمان:              پہلی جنگ میں گرد آفرید کو شکست ہوئی تھی۔ اس جنگ میں سہراب کو شکست ہوگی۔

(از خود رفتہ حالت میں سہراب کا داخلہ )

سہراب :            محبت ! محبت !! زندگی کی حلاوت ہے۔ دل کی جنت ہے۔ روح کا نشہ ہے۔ دنیا کا حسن ہے ، عروس آفرینیش کا سنگار ہے۔ دوشیزہ فطرت کے رنگینی شباب کی فردوس آفرینی ہے۔

ہومان:              اے تورانیوں کے مرکز امید ! اپنا عہد وارادوہ یا د کیجئے ۔ میدان جنگ میں محبت کی فتحیابی تو رانیوں کی فتح نہیں ہے۔

سہراب:            تم پتھر ہو۔ سرد ہو۔ بے کیف ہو ۔ زندگی کی بہترین لذت سے محروم ہو۔

ہومان:              افسوس!

سہراب:            افسوس ان کے لئے جو محبت کے آب حیات کو زہرسمجھتے   ہیں۔

(پھانک کے قریب جا کر ) تعجب ! ابھی تک دروازہ بند ہے!

بارمان:              اور دنیا کے خاتمہ تک بند ہی رہے گا۔

سہراب :            کیوں؟

ہومان:              تا کہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ آپ نے گرد آفرید کی نمائشی ، مصنوعی ، پُر فریب محبت پر یقین کر کے غلطی کی ہے۔

سہراب :            خبر دار !تم میرے یقین کو دیوانگی کہہ سکتے ہو لیکن گرد آفرید کی محبت کو جھوٹی محبت کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ تم نے ان پھول کی پنکھڑیوں سے شہد ٹپکتے نہیں دیکھا۔ خوبصورت ہونٹ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔

بارمان:              دشمن کے جنگی قلعہ کا دروازہ  عورت کے وعدوں سے نہیں زور بازوؤں سے کھلتا ہے۔

(قلعۂ کی بالائی فصیل پر گرد آفرید دکھائی دیتی ہے)

سہراب :            (ہومان سے ) وہ دیکھو! ادھر دیکھو اور اپنے قیاس کی نا تواں بینی پر نادم ہو۔ ( قلعہ کے نزد یک جا کر )پیاری آفرید! روح سے قریب ہو کر اب اس قدر دور کیوں ہو؟ فصیل قلعہ سے جلوؤں کی بارش ہو رہی ہے لیکن اس سے تشنہ تمناؤں کی تسکین نہیں ہو سکتی ۔

 گرد آفرید:        زمین کی لعنت ! تو بلا اشتعال، بلا سبب، بلا جرم ایران کا تمدنی و معاشرتی نظام غارت کرنے اور اس سے دل کا اطمینان اور ملک کی خوشی لوٹنے آیا ہے۔ تو بہادر نہیں، رہنرن ہے۔ جا! واپس جا! بہشت کے آستانے پر اہرمن کے کارندے اور قلعۂ سفید کے دروازے پر ایک ننگ انسانیت کا خیر مقدم نہیں ہو سکتا۔

سہراب:            پیاری آفرید!یہ اہل وفا کی زبان اور محبت کا لہجہ نہیں ہے۔ کیا اتنی دور سے مجھے پہچان نہیں سکتیں ؟ غور سے دیکھو ۔ میں سہراب ہوں ۔ وہی سہراب جو حسن کی پرستش کو عشق کا مذہب اور تمہارے تصور رنگین کو اپنی روح کی بہشت سمجھتا ہے۔

گرد آفرید:         خبردار! ان لفظوں سے میرے حسن کی پاکیزگی کی توہین نہ کر۔ مغرور ! اپنی اتفاقی کامیابیوں کو وقت کی سفلہ  نوازی اور قسمت کی بدنصیبی سمجھ ۔ ایران اپنی قوت و شوکت کے ساتھ زندہ رہے گا اور ثابت کر دے گا سہراب وقت کے کھیلنے کا کھلونا تھا اور اتفاقات کی ہوا میں قسمت کی لہروں پر ناچتے ہوئے بلبلے کا تماشہ ہے۔

سہراب :            پیاری آفرید !عورت کی تغیر پذیر فطرت کے بارے میں کتابوں کے ورق اور انسان کے تجربوں نے جو رائے دی ہے، کیا تم اس غلط رائے کو آج صحیح ثابت کرنا چاہتی ہو؟

گرد آفرید :         محبت کا یقین دلائے بغیر تیری قید سے رہا ہونا ناممکن تھا۔ شکر ہے کہ میں زندہ ہوں۔ لیکن سہراب کے لئے نہیں۔ اپنے ملک کے لئے محبت کے لئے ، وطن کی خدمت کے لئے ۔ تو مسمار گھروں اور بے کفن لاشوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔ لیکن ہماری زندگی میں ہمارے قلعہ اور ہماری آزادی پر قبضہ نہیں کر سکتا۔

 سہراب:            (حیرت سے) گرد آفرید! گردآفرید!

گرد آفرید:        رعونت کے پتلے !یہ  ایران و توران کی کشاکش نہیں ۔ زندگی کے میدان میں خود غرضی ظلم سے ایثار و قربانی کی جنگ ہے۔ اب صرف دو چیزیں دھویں کے کاغذ پر لکھے ہوئے آگ کے حرفوں کی طرح دکھائی دے رہی ہیں۔ عزت کی زندگی یا عزت کی موت !!

سہراب :            حسین جسم میں دغا باز روح ! صندل میں سوزش ! چاندنی میں دو پہر کی دھوپ کی تپش ! حملہ کرو۔ اس قلعۂ سفید پر اس حصار سنگین کی بستی عورت کے وعدے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اف ! کتنا فریب ! عورت ! عورت ! تو ایک خوبصورت دھوکا ہے۔ حملہ کروہ جملہ کرو اور اس قلعہ ٔسفید کے مکینوں کی بوٹی بوٹی اڑا دو۔

 (لڑائی چھڑ جاتی ہے)

(قلعہ ٔسفید پر گھمسان کی جنگ ہوتی ہے۔ ایرانی سردار بہرام کی سازش سے سہراب قلعہ کا درواز کھلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایرانی سپاہ بری طرح زخمی ہوتی ہے۔ حملہ آوروں کا شور، زخمیوں کی چینیں ،ہتھیاروں کی جھنکار، گرد آفرید اور گستہم کا اضطرابی حالت میں داخلہ )

گستہم:               دنما، شرمناک دنا۔

گرد آفرید :        دغا دی! کس نے ؟ غیرت نے ؟ ہمت نے ؟ قسمت نے ؟

گستہم:               ایرانی ماں کے دودھ سے پلے ہوئے سانپ نے۔ قوم کے غدار، دغا باز بہرام نے ۔

گرد آفرید :         ملعون ، دوزخی۔

گستہم :                اس نے سہراب کے پاس اپنا ایمان، اور دوزخ کے پاس اپنی روح فروخت کر دی۔اس کی دغا بازی ، بے قیمتی دیکھ کر مجھے تعجب ہو رہا ہے۔

 

گرد آفرید :         تعجب کیوں کرتے ہو؟ ہمیشہ ملک کے نمک حراموں ہی نے غیروں کی غلامی کے طوق سے اپنے ملک کی گردن کی زینت بڑھائی ہے ۔ غداری کی تاریخ پڑھو ۔ بہرام کی وطن دشمنی دنیا کا پہلا عجیب واقعہ نہیں ہے۔

 گستہم :               اب ہمارے لئے کوئی امید باقی نہیں رہی۔

گرد آفرید :        ( تڑپ کر ) کیوں باقی نہیں رہی؟ جب تک غلامی سے نفرت باقی ہے۔ غیرت باقی ہے۔ جسم میں ایک سانس اور قلعہ میں ایک بھی جانباز باقی ہے۔ امید بھی باقی رہے گی۔ اپاہج  ناکارہ ہو کر، بیماری کے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے بدلے قوم پر قربان ہو کر مادر وطن کی آغوش میں مرو، نا امیدی سامنے سے دور ہو۔ آؤ بس فتح یا موت۔

 ( گرد آفریدگستہم  کے ساتھ جاتی ہے)

آوازیں:            توران زنده باد - شیر دل سہراب زندہ باد (سہراب کا داخلہ )

سہراب :            گرد آفرید، میری روح کی تمنا اور میرے خواب تمنا کی تعبیر ہے۔ اسے گرفتار کرلو۔ خبر دار اس کے بال اور پاؤں کے ایک ناخن کو بھی صدمہ نہ پہنچے۔

بہرام :              لیکن گرد آفریدی نے ایرانیوں کی مردہ ہمتوں میں دوبارہ حرکت حیات اور قوت عمل پیدا کی ہے۔

سیراب:            اس لئے؟

بہرام:              وہ رحم کی مستحق نہیں ہے۔

 سہراب:            سردار بہرام !عشق کی مجال نہیں کہ حسن کو اس کے جرم کی سزا دے سکے ۔ جاؤ۔ (سپاہیوں کا جانا) چہرہ حسین ، دل بہار، آنکھیں بے مروت ۔ میں نے دنیا میں ایسی عجیب خوبصورتی اور ایسی عجیب عورت نہیں دیکھی ۔ تلاش کر وکہاں ہے؟

آوازیں بہادر توران ۔۔۔۔۔ پائند باد

 

(۲) قلعہ کا دوسراحصہ

(بگیر و بزن کا شور ۔ آفرید لہو میں شرابور لڑ کھڑاتی ہوئی داخل ہوتی ہے)

گرد آفرید:         ( کراہتی ہوئی ) آزادی کا آفتاب تلواروں کی فضا میں خون سے رنگین افق پر آخری بار چمک کر غروب ہو گیا۔ دعا اور خیانت نے قلعۂ سفید کی قسمت کو غدار بہرام کا تیار کیا ہوا سیاہ کفن پہنادیا ( تلوار کو مخاطب کر کے ) تلوار! پیاری تلوار ! میری زندگی کی وفادار سہیلی تو مجھ سے جدا نہ ہونا۔ ایک بار سہراب کے خون میں ۔۔۔۔ ( جذبہ محبت سے مغلوب ہو کر ) آہ! کتنا شیریں نام !! اس نام کو سنتے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دنیا میں محبت کے زمزموں کی بارش ہورہی ہے۔ (خیال میں تبدیلی ) محبت !کس کی محبت ؟ سہراب کی محبت !خبر دار ! خبردار!! اگر تو نے تصویر کے آئینے میں ملک وقوم کے دشمن کی محبت کا عکس بھی پڑنے دیا تو میں تجھے سینہ سے نکال کر، پیروں سے مسل کر   ذلت کی ٹھوکر مار کر بھوکے کتوں کے آگے پھینک دوں گی۔۔۔ آہ !کیا تھا اور کیا ہو گیا۔

(بہرام کا داخلہ)

 بہرام :              تلاش کا میابی ہوئی۔ گرفتار کر لو۔ گرد آفرید! دیکھا میرے مشورے پر ہنسنے  اور میری تو ہین پر خوش ہونے  والوں کی قسمت کا انقلاب دیکھا؟

 گرد آفرید:         کیا تیری روح اہرمن کے دل کی تاریکی سے پیدا ہوئی ہے؟ کیا تیری پرورش ایرانی ماں کے دودھ کے بدلے درندے کے خون سے کی گئی ہے؟ ٹوٹے ہوئے دلوں، ذبح کی ہوئی امیدوں ، خون جگر سے بھیگی ہوئی آہوں اور ، قلعۂ سفید کے بر باد خاکستر پر آنسو بہانے کے عوض تو دوزخ کے مؤکل کی طرح بے رحمی سے ہنس رہا ہے؟

 بہرام :              عداوت کے بازار کا سودا اتنے ہی گراں داموں پر بکتا ہے۔ یہ بدحالی میرے انتقام کامعاوضہ ہے۔

گرد آفرید:        اگر تیرا دل مجھ سے انتقام لینے کے لئے بیقرار تھا تو شریف دشمن کی طرح تلوار لے کر میرا مقابلہ کرتا، مقابلے کی جرأت نہ تھی تو کھانے میں زہر ملادیتا۔ یہ بھی ناممکن تھا تو سوتے میں چھری بھونک دیتا۔ لیکن غریب ملک نے تیرا کیا قصور کیا تھا۔ یادر کھا جرم کی زندگی اطمینان قلب کی موت اور گناہ کی بہار روح کی خزاں ہے۔

 بہرام:               (ہمراہیوں سے) کیا دیکھتے ہو؟ گرفتار کرو یا قتل کردو۔ ( گرد آفرید حملوں کا جواب دیتی ہے ) میرے بھو کے انتقام کا آخری نوالہ ( آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے )

گرد آفرید:        ۔۔۔ آہ!۔۔۔ دغا باز ۔۔۔۔ آستین کے سانپ !پیچھے سے آکر خنجر چلایا۔۔۔

(گرتے گرتے بہرام کا گلا پکڑ لیتی ہے ) اتنے گناہ کر چکا تھا۔ یہ آخری گناہ نہ کرتا تو کیا دوزخ کے دروازے تیرے لئے بند ہو جاتے ؟ کتنے !تجھے زندہ رکھنا کمینہ پن کی عمر میں اضافہ کرنا ہے۔ تیرا ایمان مرچکا۔ انسانیت مرچکی۔ تو بھی مر (جان لینے کا ارادہ چھوڑ کر رک جاتی ہے )مگر نہیں تو بد فطرت ہے ۔ نمک حرام ہے۔ سنگ دل ہے ۔ قاتل ہے۔ دنیا کی بدترین مخلوق ہے۔ سب کچھ ہے۔ پھر بھی میرا ہم وطن ہے۔ ( گلا چھوڑ دیتی ہے ) جا۔۔۔ قوم پرستوں کے مذہب میں بدی کا بدلہ بدی نہیں ہے۔ میں اپنے وطن کی غیرت کے صدقے میں تجھے اپنا خون معاف کرتی ہوں ۔ ( زمین پر گر پڑتی ہے)

سہراب :            ۔۔۔۔ یا خدا ۔۔۔۔ میں کیا نظارہ دیکھ رہا ہوں ! عزت کے افسانہ کا جعلی عنوان ، نسوانی جرأت کی تاریخ کا سنہری ورق خاک پر پڑا ہوا ہے۔ ( آفرید کا سر زانوں پر رکھ کر ) آفرید ! ۔۔۔ پیاری آفرید !۔۔۔ آنکھیں کھولو۔ میں تمہیں، بے وفائی کا الزام دینے کے لئے ، اپنی وفاداری کا یقین دلانے آیا ہوں ۔ کیا! نا کام محبت کو اپنے لب نازک سے تسکین نہ دو گی؟

گردآفرید:         ( نیم بیہوشی کے عالم میں ) کس کی آواز ! ستاروں کا گایا ہوا آسمانی نغمہ ۔۔۔ زمین پر۔۔۔۔ کون گا رہا ہے؟

سہراب :            تمہارا شیدائی ،تمہارا پرستار سہراب۔

گرد آفرید:         ( آنکھیں کھول کر ) تم !۔۔ تم ۔۔۔اوہ۔ ۔ مرنا بھی مشکل ہو گیا۔ (اٹھنے کی ناکام کوشش کے بعد گر پڑتی ہے ) آؤ۔ ۔ ۔ سہراب آؤ تمہیں دیکھ کر دل میں زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہوگئی ۔ لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا۔۔۔ میرے دل کے مالک ! حق وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے۔ اس لئے مجھے معاف کرو اور جو ہوا اسے بھول جاؤ ۔ موت کے دروازے پر دنیا کی دوستی اور دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔

سہراب:            پیاری آفرید! میرا خیال تھا کہ تم مجھے اپنی محبت کا مستحق نہیں سمجھتیں، اس لئے اس قدر مخالفت کے جوش میں جنگ کر رہی ہو۔

گرد آفرید:        آہ تمہیں کیا معلوم کہ’’ عشق و فرض‘‘ کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کئے ہیں! صدمہ نہ کرو۔ دوست اور دشمن ہم نام ہیں۔ اس لئے تمہیں دھوکا ہوا۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے۔

سہراب :            آہ!ان لفظوں میں کتنا ترنم اور کتنی امید نوازی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی

 دیکھو! تسکین کے پیاسے کو راحت کا آب حیات بھی پلا رہی ہے اور جدائی کا زہر بھی! (جوش میں کھڑا ہو جاتا ہے )

گرد آفرید:        الوداع ! آہ! اے عزیز وطن ! ( آخری ہچکی  لے کر مر جاتی ہے)

سہراب :            ( دیوانہ وار پکارتا ہے ) " آفرید! آفرید! آفرید ! ہائے کون جواب دے ! پھول ہے، خوشبو نہیں، مکان ہے، مکیں نہیں ، سلطنت ہے، ملکہ نہیں ۔۔۔ ( آفرید کی لاش سے مخاطب ہو کر ) قدرت نے کائنات سے اپنا بے بہا عطیہ واپس لے لیا۔ آئے ملکہ جمال ! تو نے فرض پر عشق کو اور ملک پر زندگی کو قربان کر کے ابدی حیات حاصل کرلی۔ ایران کی آئندہ نسلیں تیرے استقلال کے حیرت انگیز کارناموں پر فخر کریں گے۔ ایران کی لڑکیاں تیری بہادری کے گیتوں سے اپنی زندگیوں کو مبارک بنائیں گی۔ دنیا کی تاریخ میں ایثار کے حرف تیرے شاندار نام کی تجلی سے صفحہ دنیا پر آفتاب اور ماہتاب بن کر چمکتے رہیں گے ۔ اے زندگی کے مرجھائے ہوئے پھول ! اے وطن پرستی کے بجھے شعلے !میں تیرے قدموں کو الوداعی بوسہ دیتا ہوں ۔ یہی پہلا۔ اور یہی آخری بوسۂ محبت ہے۔

 (روتا ہوا گر پڑتا ہے)

 

(۳)     ( بارمان و ہو مان آپس میں گفتگو کر رہے ہیں )

بارمان :              بہادر ہومان ! جب سہراب ، رستم کے خیمے کے پاس پہونچ کر نہایت غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ اس وقت مجھے اندیشہ ہوا کہ ضرور خون کا جوش خون کو پہچان لے گا۔ لیکن شاباش ہے ہجیر  کو کہ اس کے جھوٹ نے باپ بیٹے کے بیچ میں سینکڑوں پر دے حائل کر دیئے ۔

ہومان:              لیکن بارمان ! مجھے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کیکاؤس کے دربار سے خفا ہو کر چلے آنے کے بعد رستم دوبارہ کی کیکاؤس کی مدد کے لئے کس طرح رضامند ہو گیا ؟

 بارمان:              کیکاؤس نہایت غصہ ور اور جلد باز بادشاہ ہے۔ جوش کم ہونے کے بعد اسے اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ آخر اس کے اظہار ندامت اور طوس اور گودرز کے سمجھانے سے رستم اپنا ارادہ بدل دینے کے لئے مجبور ہو گیا۔

ہومان:              اپنے بادشاہ افراسیاب کی آرزو پوری کرنے کے لئے کوشش کرو کہ اس جنگ کے آخر تک باپ بیٹے ایک دوسرے کی حقیقت سے ناواقف رہیں۔ تو ران کی سلامتی کے لئے رستم اور سہراب دونوں کو اور دونوں نہیں تو ایک کو مرنا ہی چاہیے۔ ورنہ یہ  مل کر ساری دنیا کو ایران اور کیکاؤس کا غلام بنادیں گے۔

 بارمان :              خیر چلو۔ دیکھتے ہیں ۔ لڑائی کا کیا نقشہ ہوتا ہے۔ (جانا)

 

(۴)  ٹرانسفر

(بزن ، بگیر کا شور ۔ کچھ سپاہی پناہ پناہ کہتے ہیں۔ رستم کا داخلہ )

رستم:                شاباش ! بہادر سردار ! شا باش!! آفرین ہے تیری بہادری کو ۔ طوس ! میدان جنگ میرا وطن اور تلواروں کی چھاوں میں میری آرام گاہ ہے۔ میری ساری زندگی خنجروں کی چمک اور خون کی بارش میں بسر ہوئی ہے لیکن میں نے آج تک معرکۂ  ٔٔٔٔکارزار میں اتنی بے جگری اور اتنی شاندار بے پروائی کے ساتھ کسی انسان کو موت سے کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس حیرت ناک دلیری اور طریق جنگ کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک دوسرار تم پیدا ہو گیا۔

طوس:               لیکن جس طرح آگ پر پارہ اڑ جاتا ہے۔ اسی طرح مقابلے کے وقت آپ کا نام سنتے ہی اس کی طاقت بھی اس کے بازوؤں سے علیحدہ ہو جائیگی۔

رستم؛               میں نے صرف ایران کی محبت اور فرض سے مجبور ہو کر انصاف ، دیانت اور اپنے اصول اور شان کے خلاف ایک سولہ برس کے ناتجربہ کارلڑکے کے مقابلے میں تلوار کھینچی ہے۔ لیکن میں اس کے سامنے اپنا رتبہ اور نام ظاہر نہیں کروں گا۔ کیونکہ ایک کم سن بچے سے لڑ نا رستم کی آبرو نہیں ، رستم کے نام کی بے عزتی ہے۔

 (پھر اندر سے شور ہوتا ہے)

طوس:               وہ دیکھئے !وہ  دیکھئے ! پھر ہمارا شکر، سیلاب کی طرح آگے بڑھنے کے بدلے، کنارے سے ٹکر اکر واپس لوٹتی ہوئی اہر کی طرح سمٹ کر پیچھے ہٹ رہا ہے۔

رستم:                زندگی کی اتنی محبت ! موت کا اتنا خوف !! کیا میدان جنگ میں تلوار اور شجاعت کو ذلیل کرنے آئے تھے !جاؤ ۔ جاؤ ۔ شرم دلانے والے لفظوں سے ہمت کے منجمد سمندر میں دوبارہ طوفان پیدا کرو۔ ان سے کہو کہ مایوس نہ ہو ۔ رستم زندہ ہے اور ایران کا اقبال بھی زندہ رہیگا۔ ( شور ) ان بزدلوں کی روح میں غیرت کی روشنی بجھ گئی ہے۔ اس لئے انہیں فرض کا راستہ دکھائی نہیں دیا۔ یہ کون؟ سہراب؟ ہاں وہی ہے ۔ کتنا بہادر ! کتنا خوبصورت !! دیکھنے سے آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ میرا فرزند ہوتا تو آسمان کی طرح آج زمین پر بھی دو آفتاب و ماہتاب دکھائی دیتے ۔ آہ! وہ موت کی تلاش میں اسی طرف آرہا ہے۔ واپس جا۔ واپس جا۔ سہراب ! اگر تیرے باپ ماں زندہ ہیں تو ان کی ضعیفی اور ارمانوں پر رحم کر اور واپس جا۔ نادان ! تو ایران میں رستم سے نہیں اپنی قسمت سے جنگ کرنے آیا ہے۔

( سہراب کا داخلہ )

سہراب:            چہرہ آگ اور دل برف۔ خوف کی آندھی میں ریت کے ذروں کی طرح اڑتے پھر رہے ہیں۔ شاید ان بزدلوں کے عقیدے میں بھاگنے ہی کا نام بہادری ہے۔ کیکاؤس ! تیری قسمت کے روشن دن کی شام آگئی ۔ کل میرے قدم تیرے تخت پر اور تیرا تاج میرے قدموں میں ہوگا۔

(رستم روکتا ہے)

رستم :                ٹھہر ۔ اس جنگ میں خود فتح تیرے خنجر کی دھارا اور نصیب تیرے بازوؤں کا زور بن جائے تو بھی تو کی کیکاؤس تک زندہ نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ اس کا تاج تیری امید سے اور اس کا تخت تیری ہمت سے بہت زیادہ بلند ہے۔

 سہراب :            یہ چہرہ!! ارے ایرانی بزرگ تو کون ہے؟

رستم:                ایران کا نمک خوار ۔ شہنشاہ کیکاؤس کا جاں نثار۔

سہراب :            ( آہستہ ) میری ماں نے اپنے لفظوں سے میرے دل پر جو رستم کی تصویر کھینچ دی ہے۔اس سے یہ پر عظمت چہرہ کس قدر مشابہ ہے۔

رستم:                میں دنیا کی کوئی عجیب ہستی نہیں ہوں۔ تو میرے چہرے کی طرف غور سے کیا دیکھ رہا ہے؟ وہی خاموشی ! وہی حیرت ! کیا تو کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔؟

سہراب :            جنگ دشمن سے ہوتی ہے، عزیزوں اور بزرگوں کے ساتھ نہیں ہوتی۔ یہ جنگ خونریزی سے شروع ہو کر آنسوؤں پر ختم نہ ہو اس لئے اے میرے محترم انسان! حملے سے پہلےمیں تیرے نام اور رتبہ سے واقف ہونا چاہتا ہوں۔

رستم:                تو عجیب طرح کی گفتگو کر رہا ہے ۔ کیا موت کے خوف سے دیوانہ ہو گیا ہے! سیراب میں نام اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ یہ چہرہ دیکھ کر میرے دل میں دشمنی کی جگہ تیری عزت پیدا ہوگئی ہے۔

رستم:                رستم تیروں سے، اژ دہوں سے دیوؤں سے، بہادری کے طوفان سے لڑتا ہے، اپنی عمر ، رتبے  اور شہرت کی توہین کرنے کے لئے جنگ کے میدان کو ماں کی گود سمجھنے والے نا سمجھ لڑکوں کے منہ نہیں آتا ۔

 سہراب :            بہادر بوڑھے ! میرا دل نہیں چاہتا کہ تجھ پر حملہ کروں ۔ میں منت کر رتا ہوں کہ مجھے غفلت کے اندھیرے میں نہ رکھ ۔ اگر واقعی تو رستم ہے تو میں تلوار پھینک کر ، ہاتھ جوڑ کر، دوزانو بیٹھ کر تیرے قدموں کو بوسہ دوں گا اور عزت وادب کے ساتھ سر جھکا کر تیری بزرگی کوسلام کروں گا۔

رستم:                دنیا پر یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ہر اب نے رستم جیسے یکتائے زمانہ دیر سے جنگ کی تھی تو دھوکا دے کر مجھ سے رستم ہونے کا اقرار کرانا چاہتا ہے۔

 سہراب:            اگر تو رستم نہیں ہے تو آنکھیں بند ہونے سے پہلے دنیا کو آخری مرتبہ حسرت کی نظروں سے دیکھ لے۔ (ایک طویل لڑائی کے بعد سہراب رستم کو شکست دیتا ہے اور قتل کرنے کی غرض سے خنجر نکال لیتا ہے۔ رسم کلائی پکڑ لیتا ہے)

رستم:                ٹھہر ۔ ایران کے بہادروں کا دستور ہے کہ دشمن کو دو مرتبہ شکست دینے کے بعد قتل کرتے ہیں۔ اگر تجھے اپنے بازوؤں کی طاقت پر بھروسہ ہے اور تیرے دل میں بہادروں کے دستور کی عزت ہے تو مجھے نصیب آزمائی کا ایک اور موقع دے ۔ قسمت کا آخری فیصلہ ہو گا۔

سہراب :             کیا اتنی سی دیر میں فتح اور شکست کا اصول ، ہرن اور شیر کی فطرت کا قانون بدل جائے گا! لو اچھا ! حفاظت زندگی کی آخری کوشش کے لئے تجھے ایک بار مہلت دیتا ہوں (سینے سے اٹھ کر) مرد کا زیور بہادری اور بہادری کا زیور رحم ہے (خنجر پھینک دیتا ہے ) جا۔ اٹھ ! ( نعرے) زندہ باد! پا ئند باد!!

بارمان:              قبضہ میں آئے ہوئے شیر کو دوبارہ حملہ کرنے کے لئے آزاد کر دینا یہ سہراب کی ایسی خوفناک غلطی ہے کہ اس غلطی پر عقل باختہ دیوانے بھی افسوس کرتے ہوں گے۔

ہومان:              اور اس احمقانہ غلطی کو وہ بہادرانہ رقم کہتا ہے۔

رستم:                پر وردگارا!میں نے کبھی تیرے قہر و غضب و حقیر نہیں سمجھا۔ کبھی تیری طاقت کے سامنے اپنی فانی طاقت کا غرور نہیں کیا۔ پھر اس ذلت کی شکل میں تو نے مجھے میری کس گناہ کی سزا دی ؟ اے دردمندوں کی دوا!! اے کمزوروں کی قوت !! اے نا امید کی امید ! اپنے عاجز بندے کی التجا قبول کر۔ اس بڑھاپے میں دنیا کے سامنے میری شرم رکھے اور ایک بار میری جوانی کا زور و جوش مجھے دوبارہ واپس دیدے۔

سہراب:            شیر دل بوڑھے ! میرا دل تیری موت دیکھنے کے لئے راضی نہیں ہوتا ۔ ایک غیبی آواز  بار بار مجھے اس جنگ سے روک رہی ہے۔ اگر ایران کی گود بہادر فرزندوں سے خالی نہیں ہے تو جا۔ واپس جا۔ اور اپنے عوض میں کسی ایرانی دلیر کو بھیج دے۔ میں تجھے زندگی اور سلامتی کے ساتھ لوٹ جانے کی اجازت دیتا ہوں۔

رستم:                ایک اتفاقیہ فتح پر غرور نہ کر ۔ ہر گھڑی انسان کے لئے نئے انقلاب لے کر آتی ہے۔

( جنگ شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد سہراب ہاتھ روک لیتا ہے ) س

سہراب:            ٹھہر ! آج میں تجھ میں نیا جوش اور نئی قوت دیکھ رہا ہوں ۔ جواں ہمت بوڑھے ! مجھے پھر شک ہوتا ہے کہ تو رستم ہے۔ میں تیری عزت کا واسطہ اور تیری بہادری کی رہائی دے کر ایک بار پھر تیرا نام پوچھتا ہوں ۔ زور سے نہیں منت سے غرور سے نہیں عاجزی سے۔

رستم :                تو میرا نام ہی جاننا چاہتا ہے تو سن میرا نام ۔

 سہراب:           (خو شی  کی گھبرا ہٹ سے)۔۔۔۔رستم۔۔؟

رستم:                سہراب کی موت!

سہراب :             افسوس !تو نے میرے رحم کی قدر نہ کی (رستم کو گرا کر سینےچڑ ھ بیٹھتا ہے)۔

 رستم :                اچھا تو دیکھے! اس بوڑھے ہاتھ کی طاقت !

(سہراب کے  سینے میں خنجر بھو نک دیتا ہے)

سہراب:            آہ !اے آنکھو، تمہارے نصیب میں باپ کا دیدار نہ تھا! کہاں ہو؟ پیارے باپ کہاں ہو؟ آؤ! آؤ! کہ مرنے سے پہلے تمہارا سہراب تمہیں ایک بار دیکھ لے۔

 رستم:                کیا اپنی جوانی کی موت پر ماتم کرنے کے لئے اپنے باپ کو یاد کر رہا ہے۔ اب تیرے باپ کی محبت ، اس کی دعا، اس کے آنسو، اس کی فریاد کوئی تجھے دنیا میں زندہ نہیں رکھے سکتی۔

 

سہراب :            بھاگ جا! بھاگ جا! اس دنیا سے کسی دوسری دنیا میں بھاگ جا۔ تو نے سام و نریمان کے خاندان کا چراغ بجھا دیا ہے۔ تاریک جنگلوں میں، پہاڑوں کے غار میں، سمندر کی تہہ میں تو کہیں بھی جا کر چھپے لیکن میرے باپ رستم کے انتقام سے نہ بچ سکے گا۔

رستم:                ( چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے ) کیا! کیا تو رستم کا بیٹا ہے؟

سہراب:            ہاں!

 رستم:                تیری ماں کا نام؟

سہراب:            تہمنہ۔

 رستم:                تیرے اس دعویٰ کا ثبوت !

سہراب:            اس باز و پر بندھی ہوئی میرے باپ رستم کی نشانی ۔

رستم :                جھوٹ ہے۔ غلط ہے۔ تو دھوکا دے رہا ہے۔ مجھے پاگل بنا کر اپنے قتل کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ ( بازو کا کپڑاپھاڑ کر اپنا دیا ہوا مہرہ دیکھتا ہے)

یہ کیا!۔۔۔ وہی مہرہ ! وہی نشانی (سر پیٹ کر ) کیا کیا!۔۔۔ کیا کیا!!

رستم:                اندھے پاگل ! بوڑھے جلا د!۔۔۔۔ یہ کیا کیا !!شیر جیسا خونخوار، بھیڑیئے جیسا ظالم، ریچھ جیسا موذی حیوان بھی اپنی اولاد کے جان نہیں لیتا۔ لیکن تو انسان ہو کر حیوان سے بھی زیادہ خونی اور بہائم سے بھی زیادہ بے رحم بن گیا ہے۔

سہراب :            فتح مند بوڑھے !تو رستم نہیں ہے پھر میری موت پر خوش ہونے کے بدلے اس طرح کیوں رنج کر رہا ہے۔

رستم:                ( رو کر ) اس دنیا میں رنج اور آنسو، رونے اور چھاتی پیٹنے کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا! میں نے تیری زندگی تباہ کر کے اپنی زندگی کا ہر عیش اور اپنی دنیا کی ہر ایک خوشی تباہ کر دی۔ مجھ سے نفرت کر، میرے منہ پر تھوک ، مجھ پر ہزاروں زبانوں سے لعنت بھیج، میں فغاں ہوں ، حسرت و ماتم ہوں ،سر سے پاؤں تک غم ہوں، میں ہی بیٹے کا قاتل ہوں۔ میں ہی بد بخت رستم ہوں!

 (رستم گر پڑتا ہے۔ سہراب گلے میں ہاتھ ڈال کر سینے سے لپٹ جاتا ہے )

 سہراب : باپ ! پیارے باپ!

رستم:                ہائے میرے لال ! تو نے الفت سے، نرمی سے، منت سے ،کتنی مرتبہ میرا نام پوچھا۔۔اس محبت و عاجزی کے ساتھ پوچھنے پر لوہے کے ٹکڑے میں بھی زبان پیدا ہو جاتی۔ پتھر بھی جواب دینے کے لئے مجبور ہو جاتا لیکن اس دور روزہ دنیا کی جھوٹی شہرت اور اس فانی زندگی کے غرور نے میرے ہونٹوں کو ہلنے کی اجازت نہ دی۔ میرے بچے! میری تہمینہ کی نشانی!

سہراب :            ہومان ، بارمان ، ہجیر سب سے نے مجھے دھوکا دیا۔۔ باپ نہ رو ۔ میری موت کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کرو ۔ باپ کے ہاتھ سے بیٹے کی قضا لکھی تھی۔

 رستم:                جب تیری ناشاد ماں بال نوچتی، آنسو بہاتی، چھاتی پیٹتی، ماتم اور فریاد کی تصویر بنی ہوئی ، سامنے آکر کھڑی ہوگی اور پوچھے گی کہ میرا لاڈلا سہراب ، میرا بہادر بچہ، میری کوکھ سے پیدا ہونے والا شیر کہا ہے ؟ تو اپنا ذلیل منہ دونوں ہاتھوں سے چھپالینے کے سوا اسے کیا جواب دونگا ؟ کن لفظوں سے اس کے ٹوٹے ہوئے دل اور زخمی کلیجے  کوتسلی دونگا؟

سنوں گا ہائے کیسے ؟ مامتا کی اس دہائی کو !

کہاں سے لاؤں گا ؟ مانگے گی جب اپنی کمائی کو

نگا ہیں کس طرح اٹھیں گی؟ مجھے قسمت ہیٹے کی

 

دکھاؤ نگا میں کن ہاتھوں سے ؟ ماں کو لاش بیٹے کی

 سہراب:            (کمزور آواز میں) پیارے باپ میری بدنصیب ماں سے کہنا کہ انسان سب سے لڑ سکتا ہے ۔ قسمت سے جنگ نہیں کر سکتا۔ آہ!

 رستم:                یہ کیا !یہ کیا!! میرے بچے ! آنکھیں کیوں بند کرلیں ؟ کیا خفا ہو گئے؟ کیا ظالم باپ کی صورت دیکھنا نہیں چاہتے ؟ یہ موت کا گہوارہ، یہ خون میں ڈوبی ہوئی زمین پھولوں کا بستر ، ماں کی گود، باپ کی چھاتی نہیں ہے۔ پھر تمہیں کس طرح نیند آگئی ؟

 سہراب :            ماں ۔۔۔۔ خدا ۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔ تسلی دے!

 رستم:                اور ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ بیٹا بولو، بولو چپ کیوں ہو گئے ؟ آہ ! آہ! اس کا خون سرد ہورہا ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہورہی ہیں ۔

اے خدا! اے کریم و رحیم خدا! اولا د باپ کی زندگی کا سرمایہ اور ماں کی روح کی دولت ہے۔ یہ دولت محتاجوں سے نہ چھین۔ اپنی دنیا کا قانون بدل ڈال۔ اس کی موت مجھے اور میری باقی زندگی اسے بخش دے۔ موت ! موت! تو زال ورود بہ کے گھر کا اجالا، میرے بڑھاپے کی امید، میری تہمینہ کا بولتا کھیلتا کھلونا کہاں لے جارہی ہے؟ دیکھ ! میری طرف دیکھ! میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو تاج و تخت کی بھیک دی ہے۔ آج ایک فقیر کی طرح تجھ سے اپنے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوں۔

سہراب:            (آنکھیں بند کئے ہوئے) ماں۔

دنیا۔۔ زندگی ۔۔۔ رخصت ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ! خدا!

(ہچکی، مرجاتا ہے)

رستم:                آہ! جوانی کا چراغ آخری ہچکی لے کر مر گیا۔ بے رحم موت نے میری امید کی روشنی لوٹ لی اب لاکھوں چاند ، ہزاروں سورج مل کر بھی میرے غم کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے۔ آسماں! ماتم کر زمین! چھاتی چیر۔ درختو! پہاڑو! ستاروں! ٹکرا کر چور چور ہو جاؤ ۔۔۔۔!

سہراب:            ۔۔۔ سہراب۔۔۔ سہراب ۔

آج ہی زندگی کی قیامت ہے۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ۔۔ زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی۔

(دیوانوں کی طرح پکارتا ہے ) سہراب ۔ ۔ ۔ سہراسب ۔ ۔ سہراب ۔

 

Post a Comment

0 Comments