Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Bhole Nawab By Ratan Nath Sarshar|بھولے نواب: رتن ناتھ سرشار

بھولے نواب ( فسانہ آزاد )

رتن ناتھ سرشار

Bhole Nawab By Ratan Nath Sarshar
(Fasana-e-Azad)
مندرجہ ذیل اقتباس  بھولے نواب رتن ناتھ سرشار کی ناول فسانہ آزاد سے ماخوذ ہے۔ یہ اقتباس ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکرمراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد کے اردو زبان دوم، بی۔اے، ابی۔ایس سی،  اور بی کام کے سال اول میقات دوّم کے نصاب میں شامل ہے۔
Bhole Nawab By Ratan Nath Sarshar

(میاں آزاد نواب کے دربار میں پہنچے تو یہاں خوشامدیوں اور مفت خوروں کی محفل جھی تھی ، چہلیں ہورہی تھیں ) اتنے میں ایک چوبدار برہنہ سر، پریشان و مضطر،لپکتا ہوا آیا۔ ” خداوند بڑا غضب ہو گیا۔ ‘‘’’کیا کہتے ہو ؟ ‘‘’’کیا کہوں، کیوں کر کہوں ۔‘‘’’ کہو ایں خیر  ہے، بولو تو ۔“

سب کا رنگ فق کہ خدا ہی خیر کرے۔ نواب کا کلیجہ دہل گیا۔ میاں کچھ منھ سے بولو، سرسے کھیلو، آخر کیا آفت آئی، کچھ معلوم تو ہو۔

چوبدار:             (ہاتھ جوڑ کر ) جان بخشی ہو تو عرض کروں ۔ بیٹر سب اڑ گئے ۔

نواب:               (ہاتھ ملتے ہوئے) سب ! ارے سب اڑ گئے ۔ ہائے میرے صف شکن کو جو ڈھونڈ لائے ہزار نقدا نقد گنوائے۔ اس وقت میں جیتے جی مرمٹا۔ اُف اُف بھئی ابھی سانڈنی سواروں کو حکم دو کہ پنج  کوسی دورہ کریں۔ جہاں صف شکن ملے سمجھا بجھا کر لے ہی آئیں۔

مصاحب:          خداوند سمجھانا کیسا۔ وہ بھی کوئی آدمی ہے کہ سمجھ جائے گا جنور لاکھ پڑھے پر بھی جنور ہے۔

نواب:               کوئی ہے؟

رفقا:                 حاضر پیر ومرشد - خداوند جی حضور !

نواب:               ان پر جوتے پڑیں۔ لو صاحب ہم تو اس وقت گھبرائے ہوئے ہیں۔ یہ بات کا ٹتا ہے۔ صف شکن کو تم ایسے گدھوں سے زیادہ تمیز ہے۔

رفقا:                 حق ہے۔ اے حضور وہ تو عربی سمجھ لیتا ہے۔ دوسرے بولے، خداوند، اس کو قرآن کے کئی پارے یاد ہیں۔ تیسرے نے کہا قسم ہےپنجتن  پاک کی ، میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ چوتھے ۔ ایک دن ہنس رہا تھا۔ پانچویں،  اجی ہم نے ڈنڈ پیلتے دیکھا ہے۔

نواب صاحب کو ان کی باتوں کا یقین آ گیا۔ اس مصاحب بیچارے کی گدی پر دو چار گُدّے پڑ گئے۔ بٹیر کیا اڑ گئے کہ نواب کے ہاتھوں میں طوطے اڑ گئے ۔ آنکھوں سے اشک جاری ۔ٹپ ٹپ آنسو گر رہے ہیں۔ کلیجہ بلیوں اچھل رہا ہے، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ہائے میرا صف شکن، پیارا صف شکن ۔

اگر دانستم از روزِِ ازل داغِ جدائی را

نمی کردم بہ دل روشن چراغِ آشنائی را

مجھے تو اس سے عشق ہو گیا تھا جی۔ میں تو اس کی بانکی ادا پر جان دیتا تھا۔ یارو! وہ نوکیلی چونچ ، وہ بے تابی سے کا کن چگنا، چکھی کھائی اور ڈٹ گیا۔ سینکڑوں معرکوں میں لڑایا مگر کورا آیا۔ دودو چوچیں ہوئیں اور بیٹر دم دبا کر بھاگا پھر سامنا ہوا اور منھ پھیر دیا۔ کسی بانکپن سے جھپٹ کرلات دیتا تھا کہ پالی بھر تھرا اٹھتی تھی ۔ اور اس کی بساط ہی کیا تھی۔ منجھولا جنور لیکن بلا کا کس بل اور قسم ہے صف شکن ہی کی۔ اس کی خوبیاں تو مجھے پر آج کھلیں۔ یہ تو میں پہلے ہی سے جانتا تھا کہ وہ حقّانی جانور ہے۔ صورت بٹیر کی مگر سیرت فقرا کی اور ایک پنڈت نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ کیا جانے کیسی کھنڈت ہو گئی ،نہیں تو اس کا بڑا درجہ تھا۔ اب سنا کہ نماز بھی پڑھتا تھا۔

مصاحب:          حضور کو یاد ہی ہوگا کہ رمضان شریف کے مہینے میں اس نے دن کے وقت دانہ تک نہ چھوا۔ حضور سمجھے تھے بوندا ہو گیا مگر میں تاڑ گیا کہ پابند صوم وصلوٰۃ ہے۔ جل ِِجلالہ جلِ جلالہ۔ کیا شان کبریائی ہے خداوند اب میں حضور سے کہتا ہوں کہ دس پانچ دفعہ میں نے افیم بھی پلائی مگرو اللہ باللہ  ثم باللہ جو ذرا بھی نشہ ہوا ہو ۔ ہاں انکھٹریوں میں لال لال ڈورے پڑ گئے تھے۔

میر صاحب:       پیر و مرشد یقین جانئے پچھلے پہر سحر کا ذب تک حق حق کی آواز کا بک سے آیا کرتی تھی۔ غفور تم کو بھی تو ہم نے کئی بار جگا کر سنایا تھا کہ صف شکن یاد خدامیں مصروف ہیں۔

غفور:                ہاں میاں پچھلے پہر سے حق حق کیا کرتے تھے اور دیکھا تھا کہ سجدہ کر رہے ہیں۔

خوجی:                جل جلالہ جل جلالہ، واہ میاں صف شکن علی شاہ ۔

  نواب:               بھئی ہم نے اسے پہچانا ہی نہیں۔ اف اف بھئی کوئی پنکھا جھلنا ۔

مصاحبین :          ( غل مچا کر ) پنکھا لا ؤ جلدی۔ سامنے کھڑے ہو کر جھلو۔

نواب:               یتیم  جو میں جانتی کہ پیت کئے دکھ ہوئے

 نگر ڈھنڈورا پیٹتی کہ پیت کرے نہ کوئے

خوجی:               (پینک سے چونک کر ) ہاں ذری اونچے سروں میں ۔ واہ استاد چھیڑے جا۔ اس وقت تو میاں شوری کی روح پھڑک گئی ہوگی۔

نواب:              چپ نامعقول ۔ کوئی ہے ان کو یہاں سے ٹہلاؤ۔ یہ رئیسوں کی صحبت کے قابل نہیں۔ مجھ کو بھی کوئی گویا مقرر کیا ہے۔ یہاں تو جی جلتا ہے اور اندر ہی اندر پھنک رہا ہوں۔ ان کے نزدیک قوالی ہورہی ہے۔ کہنے لگے اونچے سروں میں ۔ میاں شوری یاد آتے ہیں۔ تم ایسے مفت خوروں کو کسی کے دکھ درد سے کیا سروکار، تم کو تو چکھو تیوں سے مطلب ہے اور بس ۔ فیرنی ہو، کھیر پکے، مزعفر پر ہاتھ پڑے ۔ٹکڑے کھائے دل بہلائے ، کپڑے پھٹے گھر کو آئے ۔

خوجی:               خدواند غلام تو اس وقت اپنے آپ میں نہیں۔ ہائے صف شکن کی کا بک خالی ہو اور میں اپنے ہوش و حواس سے چوکس رہوں۔ میرا معشوق نظر سےغائب ہو تو طبیعت کیوں کر حاضر ہو۔ حضور نے اس وقت مجھ پر جبر کیا۔ افسوس ہائے افسوس ۔ ارے یا ر وصف شکن کو کہیں سے ڈھونڈ لاؤ۔ کوئی تو پتہ لگاؤ۔ چور گیدی سے خدا سمجھے۔

نواب:              شاباش۔۔۔ خوجی ! شاباش! اس وقت طبیعت بہت ہی خوش ہوگئی۔ بیشک تم نمک حلال، تمہارے باپ دادا نمک حلال ۔ ارے بھئی سانڈنی سوار دوڑائے گئے یا نہیں؟

مصاحب:          شجاعت علی سے کہوا بھی سانڈنی تیار ہو اور بیج کوسی چکر لگائے ۔ جہاں صف شکن ملے ان کو سمجھا بجھا کر لے ہی آئے۔

شجا عت:            جاتا تو ہوں مگر وہ تو منطق پڑھے ہیں۔ میری کیا سنیں گے۔ کوئی مولوی بھی تو ساتھ بھیجے ان سے بحثے گا کون؟ غلام تو کچھ اونٹ ہی چلانا خوب جانتا ہے۔ ان سے دلیل کون کرے بھلا ۔

خوجی:               خدا وند قربان جاؤں ۔ افیم ، چانڈو، ملک، چرس کی بحث ہو تو بندہ ٔدرگاہ کو بھڑا دیجئے مگر وہاں تو حقانی با تیں ہوں گی۔ اس میں ایں جانب کو واجبی ہی واجبی دخل ہے۔ پھر دخل در معقولات دے کر اُلّو بنوں مفت میں۔

میاں آزاد:        پیر ومرشد نانک بنوٹ لکڑی پٹے کا چرچا ہوتا تو بندہ بھی تلوار سوت کر عین موقع واردات پر جاڈٹتا تھا اور چر کے پرچر کا، نشتر پر نشتر لگاتا۔ مگر منطق کی بحث کچھ خالہ جی کا گھر تو ہے نہیں۔ کسی جغادری مولانا کو بلوائیے ۔

مصاحبوں نے ایک مولانا صاحب کو تجویزا۔ مولانا بچارے پھٹے حال تھے۔ سمجھے کہ جو ملے غنیمت ہے۔ مگر یاران سرپل نے ان سے کل داستان نہیں بیان کی ۔ چو بدار مکان پر گیا اور کہا کہ نواب صاحب نے آپ کو یاد کیا ہے۔ چلئے کسی بڑے عالم سے بحث ہوگی۔

مولانا :               السلام علیکم ! حضور نے آج یاد فرمایا۔ زہے نصیب ۔

نواب:               وعلیکم السلام ۔ آپ کو اس وجہ سے تکلیف دی کہ میرا قرۃ العین ،لخت جگر، نور بصر ناراض ہو کر چلا گیا مگر بہت منطقی ہے۔ اسرار خدائی سے واقف ،علم مناظرہ میں طاق، پابند روزہ و نماز ، آپ بحث کیجئے اور معقول کر کے لےآئیے۔

مولا نا:               انشاء اللہ والدین کا بڑا حق ہوتا ہے۔ وہ کیسے نادان آدمی ہیں کہ والدی  سے خفا ہو گئے ۔ مقام استعجاب ہے۔

خوجی:                مولانا صاحب وہ بٹیر ہے۔ مگر خوش تمیز، عارف ، زاہد، عفت کوش ،متقی ، متشرع، منطقی ،فلسفی ہیئت داں ، عربی خواں۔

میر صاحب ؛       کیا صف شکن کا نام مولانا صاحب نے نہ سنا ہو گا۔ وہ تو روم تک مشہور تھے۔

قبلہ حقیقت حال یوں کہ سرکار کا بٹیر صف شکن کل کا بک سے اڑ گیا۔ اب تجویز یہ ہوئی ہے کہ ایک سانڈنی سوار جائے اور سمجھا بجھا کر لے آئے مگر شتربان پھر شتر بان ہے۔ لاکھ صحبت یافتہ ہوتو کیا۔ لہذا آپ بلائے گئے کہ سانڈنی پر سوار ہو جئے اور ان کو بہ لطائف الحیل بلالا یئے ۔

مولانا:               درست ، آپ سب کے سب نشے میں تو نہیں ہیں۔ ہوش کی باتیں کیجئے۔ خود مسخرے بنتے ہو یا مجھے مسخر بناتے ہو۔ بٹیر منطقی کیسا؟ لاحول ولاقوۃ ۔ آپ نے مجھے بھی کوئی نقل ِِمحفل بنایا ہے۔ اور سنئے بٹیر اڑ گیا اس کو سمجھا کر لاؤ۔ وہ بھی کوئی مولوی ہے یا آدمی ہے۔ صف شکن ؟ کون لڑائی سرکی تھی۔ استغفر الله استغفر اللہ ۔ اچھے گاؤدیوں کا مجمع ہے۔ بندہ رخصت ہوتا ہے۔

نواب:               یہ کس کوڑھ  مغز کو لائے تھے۔ خاصا جا نگلوا ہے۔

آزاد:                اچھا حضور بھی کیا یاد کریں گے کہ اتنے بڑے دربار میں ایک بھی منطقی نہ نکلا۔ لے اب غلام  نے بیڑا اٹھالیا کہ جاؤں گا اور لاؤں گا ۔ ایک تو سانڈنی دیجئے بادر فتار۔ اور دودن کی خوراک دیجئے اور ایک خط اپنے دستخط مبارک سے لکھ دیجئے۔ تیسرے دن غلام مع صف شکن خان بہادر ڈیوڑھی پر موجود نہ ہو تو مونچھیں منڈوا ڈالئے۔

نواب:               اچھا آپ جائیے اور لیس ہو کر آئے۔ میں یہاں بندوبست کئے دیتا ہوں ۔ مگر ابھی آئیے دیر نہ ہونے پائے۔ اتنا خیال رہے۔

میاں آزاد گھر گئے تو اور مصاحبوں میں کھچڑی پکنے لگی، یارو یہ تو بازی جیت لے گیا۔ پالا اس کے ہاتھ رہا اور جو کہیں صف شکن کو لے آیا تو پھر ہم سب پر شیر ہو جائے گا۔ پھر آزاد ہی آزاد چوطرفہ نظر آئیں گے ۔ ہم کو آپ کو کوئی نہ پوچھے گا۔ اس کی فکر کیجئے۔

فوجی:                حضور ! جان بخشی ہو تو عرض کروں ۔

نواب:               کہئے نا، یہ جان بخشی کا کون موقع ہے۔ کوئی عمدہ صلاح بتائیے ، کوئی معقول تدبیر نکالئے۔

فوجی:                حضور ! میاں آزاد بھی دو دن سے اس دربار میں آئے ہیں۔ ان کا اعتبار کیا۔ خدا جانے اچکے ہیں۔ اٹھائی گیرے ہیں، چور ہیں، گروکٹ ہیں، کوئی کیا جانے اور جو سانڈنی ہی لے کر رفو چکر ہوں تو پھر کوئی کہاں ان کا پتہ لگاتا پھرے۔ انصاف سے کہئے گا کہ ایک خانہ برباد خانہ بدوش آدمی کا ٹھکانہ کیا اور وہ کچھ بیدھا ہے کہ پھر واپس آئے گا۔

مصا حب ؛          ہاں خداوند کہتے تو سچ ہیں۔

رفیق:                پیرومرشد، سڑی ہے تو کیا ہوامگر کہتا پتے کی ہے۔

میر صا حب :       یہ خوبی صورت ہی سے ایسے معلوم ہوتے تھے لیکن بات کہی ٹھکانے کی ۔ اے ہاں ایسے آزاد کا ٹھکانا کیا۔ سانڈنی کے کوڑے کر لے اور اپنی راہ  لے۔

مسیتابیگ:         ہم تو حضور کو صلاح نہیں دیں گے کہ میاں آزاد کو سانڈنی دیجئے۔

نواب:               چلوبس بہت نہ بکو۔ تم اٹھائی گیرے مفت خورے ہونا ، سب کو اپنا ہی ایسا سمجھتے ہو۔ آزاد کی چتون کہے دیتی ہے کہ وہ وزارت کے قابل ہے۔ تم میں سے کوئی اس کی جوتی کی پھٹ پھٹ کو نہیں پہنچتا اور فرض کرو کہ سانڈنی جاتی ہی رہے تو کیا میں بھی کوئی ٹکڑ گدا ہوں کہ سانڈنی کے کھونے سے مجھے بھیک مانگنے کی نوبت آئے گی اور ہزار بات کی ایک بات تو یہ ہے کہ صف شکن پر لاکھوں صدقے سانڈنی کس شمار میں ہے۔

 

ہمارے سیلانی جوان ، رنگیلے پہلوان، ظریفوں کی جان، زندہ دلوں کی روح رواں ، میاں آزاد نے سانڈنی پر کاٹھی کسی اور بھولے بھالے دیوانے متوالے نواب سے رخصت ہوئے۔


Post a Comment

1 Comments

  1. Bahot umda kam.qaaraeen e adab ke liye...Best website for literature lovers.

    ReplyDelete