Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Leftini ki Mushkilein By Carmal Muhammad Khan|لفٹینی کی مشکلیں-کرنل محمد خان

لفٹینی کی مشکلیں-کرنل محمد خان
Leftini ki Mushkilein By Carmal Muhammad Khan

 

مندرجہ ذیل اقتباس’لفٹینی کی مشکلیں کرنل محمد خان کی خودنوشت سے ماخوذ ہے جو مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کے جماعت باروہیں کے اردو نصاب میں شامل ہے

 

جنوری۱۹۴۰ءمیں ہر چند کہ پو لینڈ اور ہٹلر کے دوسرے ہمسا یے جر من بمباروں اور ٹینکوں کے درمیا ایسی پرُسکون زندگی بسر نہیں کر رہے تھے تاہم باقی دنیا بہ فصل خدا خیریت سے تھی اور ہمارے اپنے ملک ہندوستان میں انگریزکی برکت سے اس شدت سے امن بر پاتھا کہ شیر بکری مع جملہ ہندوستانیوں کے ایک گھاٹ پانی پی رہے تھے۔چنا نچہ صلح وآشتی کے اس خوشگوار ماحول میں کسی کو گمان تک نہ تھا کہ عین اس وقت ملک کے ایک گوشے میں ایک اہم جنگی واقعے کی ابتدا ہورہی ہے یعنی لا ہور میں ایک نو جوان کا لج چھوڑ کر جنگ میں کود پڑنے پر تُل گیا ہے……یہ جوان میں ہی تھا۔

ہمیں فقط لفٹین بننے کا شوق تھا۔ چنا نچہ ہم نے فوج میں کمیشن کے لیے درخواست دے دی۔

 

اُن دنوں ابھی وہ مصیبت نازل نہیں ہوئی تھی جسے آج کل سلیکشن بورڈکہتے ہیں۔انٹرو یو تو خیر اُدنوں بھی ہوتے تھے،بلکہ ایک چھوڑ تین تین لیکن نہایت شریفا نہ قسم کے۔ایک بزرگ سا جرنیل،کچھ نیم بزرگ سے بر یگیڈ یئر اور کرنل بیٹھے ہوتے تھے۔سامنے کرسی پرامیدوار کو بٹھا دیا جاتا تھااور پھر اُس سے نہایت بے ضررسے سوال پوچھے جاتے تھے:

آپ کا نام کیا ہے؟

تعلیم کہاں تک ہے؟

فوج میں کوئی رشتے دارہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

چنا نچہ ہمارے دوانٹرو یو جہلم اور پنڈی میں ہوئے اور ہم کا میاب رہے۔ آخری انٹرویوکے لیے حکم ملا کہ فلاں تاریخ کو شملہ حاضر ہو جاؤ۔یہ سن کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

چنانچہ ہم ایک نیم لفٹینی کے عالم میں شملہ روانہ ہوئے اور جب انٹرویوہوچکا تو شملے سے گھر پہنچتے اور لفٹینی کے حکم کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔اِدھر چند عجلت پسند بزرگوں نے ہماری لفٹینی کے اعزاز میں پیشگی دعوتیں دینا شروع کردیں جنھیں ہم واجبی بر خرداری مگرافسرانہ وقار کے ساتھ قبول کرتے رہے۔آخرایک دن ڈاکیا کُھلا تارلے کر آیا اوردور ہی سے بولا،لفٹین صاحب،لفٹینی مبا رک ہو۔

 

            لیکن تار پڑھا تو فقط اتنا لکھا تھا تمھیں او.ٹی.ایس.مہو میں ٹریننگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔۸\اگست ۱۹۴۰ء کو حاضر ہو جاؤ۔

 

ریل کے سفر کے لیے درجۂ اوّل کا ٹکٹ ملا۔یہ بھی ہماری عالی جا ہی کی علامت تھی۔ ٹکٹ دیکھنے والے ڈبے میں ذاخل ہوتے تو سَر کہہ کر خطاب کرتے۔خدا جانے اُنھیں کیسے محسوس ہوجاتا کہ یہ عام آدمی نہیں،لفٹین ہے۔ بہر حال ہم ان سے وہی سلوک کرتے جو ایک افسر کو درمیانہ درجے کے سر کاری  ملاز سے کرنا چاہیے اور اتفا ق رائے اس بات پر ہوا کہ معمولی فرق ہے چنانچہ رتلام اور مہو کے درمیان ہمارا مزاج عرش معلّیٰ سے کچھ ہی اِدھر تھا۔

 

            آخرمہو کا اسٹیشن آگیا۔تو قع تھی کہ ہمارے استقبال کے لیے فوج کا دستہ آئے گا، بینڈ ہوگا،موٹریں ہوں گی جن کے ڈرائیور ہمارے لیے دروازہ کھولیں گے اور با ادب با ملا حظہ ہمیں اپنے بنگلوں تک پہنچا دیں گے لیکن دیکھا تو یہاں کا بندوبست کسی قدر مختلف نظر آیا۔استقبال کے لیے آدمی تو تھے لیکن ان میں ایسی وافرآدمیت نہ تھی۔گاڑی رُکی تو ہمارے ڈبے میں ایک گورا داخل ہوا جس کے بازوپر تین سفید دھجّیاں لگی تھیں۔آتے ہی بولا اگر اس ڈبے میں کوئی کیڈٹ ہے توابھی مت باہر نکلے۔

            ہم بیٹھ تو گئے لیکن اس گورے کی زبان بے حد کُھردری لگی۔علا وہ ازیں کیڈٹ کا لفظ سن کر کچھ تشو یش سی ہوئی کہ ہم سے کوئی دھوکا تو نہیں ہو رہا۔لفٹین تو لفٹین ہوا،یہ کیڈٹ کیا جنس ہے؟ چنا نچہ ہمیں ذرا پختہ سا شبہ ہونے لگا کہ ان انگر یزوں نےلفٹینی سے اصل کی کچھ خفیہ شر طیں بھی ٹھہرا رکھی ہیں جن سے ہمیں پہلے آگاہ نہیں کیا گیا۔

 

جب اسٹیش دوسرے مسا فروں سے خالی ہوگیا،تو گورا پھر آیا اور اچانک چلّایا سب کیڈٹ میرے سامنے قطارمیں کھڑے ہو جائیں۔

 

ہم نے کسی قدرحیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ بے دلی سے قطار بھی بنالی۔گورا پھر چیخا دائیں سے ایک دوتین بولو۔

 

ہم نے حکم کی تعلیم تو کی تعمیل تو کی لیکن محسوس ہوا کہ یہ سلوک ہماری شان کے شایا ں نہیں۔ آخر ہم رنگروٹ تو تھے نہیں جو قطاریں بناتے پھرتے یا نگتی شروع کر دیتے۔بہر حال ہمیں تین ٹو لیوں میں تقسم کیا گیا اور پھر وہی گورا بولا باہر تین ٹرک کھڑے ہیں ،ہر ٹولی ایک ایک ٹرک میں سوار ہو جائے۔

 

            ہمیں یقین ہو گیا کہ ضرور کوئی غلط فہی ہوئی ہے۔کچھ بھی ہو ہمیں  ٹر کوں میں لے جانا شدید غلطی بلکہ بےادبی ہے۔ موٹر کاریں ہونا چاہیے تھیں مگر سوچا کہ اِن سے اُلجھنا ہمیں زیب نہیں دیتا چنا نچہ ہم نے قلیوں کو آواز دی کہ ہمارا ساما ن ٹرکوں میں ہی رکھ دیں۔ہمارایہ کہناتھا کہ گورا گرج کر بولا ،کیا کہا قُلی؟تم فوجی اسکول میں آئے ہو۔ہسپتال میں نہیں۔اپنا سامان خودا ٹھاؤ ٹرکوں میں لادو اور اوپر بیٹھ جاؤ یا کھڑے رہو۔سمجھے؟

 

            سمجھ تو گئے اور ہماری خوش فہمیوں پر کچھ اوس بھی پڑی لیکن ہم سب نے حتی المقدور جلال میں آکر اس بے ادب کو گہرے اور متفقہ غضب سے دیکھا اور کھڑے کھڑے فوجی زندگی کی پہلا فیصلہ کر ڈالا کہ جو ں ہی لفٹین ہو گئے۔اس گستاخ گورے کا کورٹ مارشل کردیں گے۔اس دلیرانہ فیصلے پر ہر طرف سے مرحبا کی صدااُٹھیاِس وقت ہم کورٹ مارشل کو مارشل لا کا قریبی رشتے دارسمجھتے تھے؟

 

            منزلِ مقصودکی جھلک تو قعات سے بہت غیر مشا بہ تھی۔ہماری جائے قیام کے خدوخال بنگلے کی نسبت جیل سے زیادہ ملتے جلتےتھے۔ایک سنگین بلکہ سنگ دل سی بیر ک تھی تنگ وتاریک اور طویل جس کے اندار دیواروں کے ساتھ آہنی چار پائیاں پڑی تھیں اور چار پائیوں پر ہمارے ناموں کی تختیاں آویزاں تھیں۔انھیں دیکھ کر ہمیں جھٹکا سالگا۔گوراجیسے ہمارےخوف کو بھانپ گیا اور کڑک کر بولا یہ تختیاں گلے میں لٹکانے کے لیے نہیں،مخص تمھاری نشستوں کت تعین کے لیے ہیں۔ اب اپنی اپنی چار پائیاں ڈھونڈ لو اور اپنا سامان وہاں اُٹھا کرلے جاؤ‘‘۔

 

            ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ سامان اُٹھا نے اور چلنے پھر نے میں چستی دکھاؤاور شورمت کرو۔

 

شام ہوئی تو کھانے کے لیے messمیں گئے۔یہ پہلی جگہ تھی جہاں لفٹینی کے آثار نما یاں تھے۔ہم سب ایک افسرا نہ ٹھاٹ سے ڈرائنگ روم میں صوفوں پر بیٹھ گئے۔مَو دّب اور باوردی بیروں نے ہماری خواہش کے مطابق مشرو بات پیش کیے۔اس خو شگوار ماحول میں ہم نے اسٹیشن اور بیرک کے ناخو شگوار واقعات کو بھلا دیا اورایک سرور کے عالم میں باہم گِٹ پِٹ گِٹ پِٹ کرنے لگے۔

 

اِتنے میں دوخوش لباس انگریزاندرداخل ہوئے۔یہ بھی فوجی وردیاں پہنے ہوئے تھے لیکن اِن کے بازوؤں پر تین دھّجیاں نہ تھیں بلکہ کند ھوں پر پیتل کے تین تین چمکتے ستارے تھے۔ یہ افسرتھے۔اِن کی قضع قطع،چیت اور طور طریقوں میں شائستگی اورقار تھا۔اُنھیں دیکھا تو فخر سا محسوس ہوا کہ اُصولاًہم اور یہ افسرایک ہی لڑی کے موتی ہیں۔آج نہیں توکل ہمارے کندھوں پر بھی وہی جگ مگ کرتے ستارے اُبھرنے والے تھے۔

 

            تھوڑی دیر کے بعد ساتھ کے کمرے میں کھانے کے لیے گئے۔انگریزی کھانے اور یسی کھانےکے انداز میں تقر یباًوہی فرق ہے جوانگریزی اور اُردو بولنے میں ہے۔جس طرح ایک نو آموز کی زبان سے انگریزی الفاظ یا محاورے پھسل پھسل جاتے ہیں اُسی طرح ہمارا انگر یزی مڑ گو شت، بھی ہمارے اناڑی چھری کانٹوں  کی زَد میں نہ آتا تھا۔ادھر ہاتھوں سے کھا نا خلافِ شان تھا لیکن بر ضاورغبت فاقہ کرنا بھی ممکن نہ تھا،لٰہذا جس طرح بولتے بولتے انگریزی  جواب دے جائے تو اُردو پر ہاتھ یا زبان صاف کرلی جاتی ہے اسی طرح جہاں ں انگریزی چھری کانٹے سے کام نہ چلتا ہم  آنکھ بچا کر اُنگلیوں ہی سے بوٹی اُچک لیتے۔گو یا انگریزی کھانا اُردو میں کھا لیتے۔بعض حضرات البتہ ایسے بھی تھے جو لفٹینی کے احترام میں اوزاروں کی وساطت کے بغیر کوئی چیز حلق سے اُتارتے ہی نہ تھے۔ان میں سے کئی ایک کو دیکھا کہ چھری کا نٹا لیے پلیٹ میں مٹروں کا تعا قب کر رہے ہیں اور مٹر ہیں کہ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے!قصہ مختصر اس کے کہ ان مٹروں کو کوئی گزندپہنچتا،بیرے پلیٹیں اُٹھا کر چل دیے اور لفٹین صا حبان اپنا سامنہ اور چھری کاٹالے کررہ گئے۔بعض اوقات یہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ بیرا جو کچھ سامنے رکھ گیاہے،اس کے سات سلوک کیا کرنا ہے۔چنا نچہ کافی آنکھ سے اُن انگریزو کو دیکھتے اور پیچھے اُن اما موں کے چمچے اور کانٹے اُٹھا کررکوع وسجودمیں جاتے۔

 

            کھا ناختم ہوا توایٹری میں آئے اور کافی کا دور چلا لیکن تھوڑی دیر بعد دونوں انگریز کپتان اُٹھ کھڑے ہوئے اور یہ خوشگوار مجلس بر خاست ہوگئی۔وہاں سے اُٹھ کر بیرک میں واپس آئے تو وہی گو راسب کو مخا  طب کرکے کہنے لگا  کل صبح سات سوبجے پی ٹی کے میدان میں حاضر ہونا ہے۔لباس،بنیان نیکر اور ربر کے جوتے۔

 

اور اتنا کہہ کراکڑتا ہوا چل دیا۔گویا یہ گورا باز نہیں آرہا تھا۔ وہی حرکتیں کرتا تھا جو لفٹینی کے منا فی تھیں۔

کسی نے پوچھا ارے یار یہ سات سوبجے کس بلا کا نام ہے؟

ایک صاحب بولے بے معی بات ہے۔گوراا نگریزی غلط بولتا ہے۔

ایک فوجی کیڈٹ نے آہستہ سے کہہ دیا اس کے معنی ہیں صبح سات بجے۔

دن بھر کے تھکے تھے۔صبح تیار  ہوتےہوتے ہم میں سے کئی ایک پی ٹی کے لیے سات بجے سے ایک دومنٹ بعد پہنچے۔کالج میں ہم گھنٹوں دیر سے پہنچا کرتے تھے اور اگر پروفیسر صاحب کے ماتھےپر ایک آدھ ہلکی سی شکن آجاتی تو لمحے بھر میں بغیراستری کے ہموار بھی ہو جاتی تھی لیکن ا گورے ے جو ہمیں ذرادیر سے آتے دیکھا تو کچھ اس انداز سے چلّایا گویا بھو نچال آگیا۔رہیں اس کی پیشانی کی شکنیں توان کی اصلاح کے لیے استری کی بجا ئے روڈ رو لردر کا رتھا۔

 

ہم خاموشی سے قطاروں میں کھڑے ہوگئے اور پی ٹی شروع ہوئی۔پہلے تو ہمیں میدان کے ارد گرددوڑ ایا گیا یعنی ڈبل کر ایاگیا۔(ڈبل کے یہ معنی ہمیں پہلی دفعہ معلوم ہوئے) بعد ازاں چند ایسے زاویوں پر جھکنے کا حکم ملا جو فطرت کی منشاکے سراسر خلاف تھے۔کوئی آدھ پون گھنٹے کی پی ٹی کے بعد ہم تسخیرِ فطرت میں تو کسی قدر کا میاب ہو گئے لیکن ہماری اپنی تر کیب عنا صر میں خا صاخلل آگیا۔

 

آخر پی ٹی ختم ہوئی اور حکم ہواکہ ناشتے کے بعد پھر یہیں حاضر ہونا ہے اور وقت نو سو تسیں بجے کا ملا۔فوجی کیڈٹ سے معنی پوچھے تو معلوم ہوا کہ صبح کے ساڑھے نو بجے مرادہے۔ساتھ ہی یہ بھی کھلا کہ یہ گورا کمپنی سا رجنٹ میجر ہے جس کی نافر انی ایک کیڈٹ کی عا قیب کے لیے سخت مضر ثابت ہو سکتی ہے۔

 

            ناشتے کے بعد جب میدان میں پہنچے تو سارجنٹ میجر کو غیر حاضر پایا۔گھڑی دیکھی تو معلوم ہواکہ وہ غیر حاضر نہیں ہم ہی وقت سے پہلے پہنچ گئےہیں۔گو یا فوجی ضبط کی پہلی خواراک  ہی اس قدرزوداثر نکلی۔صحیح وقت پر سارجنٹ میجر نمودار ہواتواپنی فتح پر ذرا مسکرایا،لیکن فوراً منجمو ہو گیا اور ہمیں حکم دیا کہ ارٹر ماسڑاسٹور میں جاکر اپنے اپنے سائز کے بُوٹ لے آؤ۔

 

            بوٹ دیکھے تو محسوس ہوا کہ پہننے کو وہ جیزدی جارہی ہے جو گینڈوں کے پاؤں کے لیے زیا دہ موزوں ہے اور جب پہن کر دو چار قدم چلنے کی کوشش کی تویوں لگا جیسے نانگا پربت گھسیٹ رہے ہیں۔فوجی کیڈٹ نے آہستہ سے کہہ دیا کہ ان بو ٹوں کے ساتھ تو ڈبل بھ کرنا پڑے گا۔ یہ سنا تو تمام سلسلئہ قراقرم سرَ پر آپڑا۔

 

ڈرِل کے غاز سے پہلے کپتان صاحب نے turn outیعنی یو نیفارم وغیرہ کا معا ئنہ کیا اورمعائیہ کیا کیا،گویا ہمیں خردبین کے نیچے رکھ دیا۔ہم نے ڈرِل میں شرکت سے پہلے فوجی کیڈٹ کو بوٹ کو،بوٹ،پٹی،نمبر،بٹن،پیٹی،فلیش وغیرہ دکھا لی تھی لیکن کمپنی کمانڈر صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی جیسے پہچان لیا اور فرمایا،کیڈٹ نمبر۱۵،کالر پر ایک سفید ذرّہincorrectly dressed ۔سزا:تین ایکسڑاڈرل۔

 

            اِس کے بعد ڈرل شروع ہوئی اور خوب تیزی اور تُندی سے حکم ملنے لگےسیدھے دیکھو۔چھاتی باہر۔تھوڑی اوپر بازو ہلاؤ۔ہالٹ۔ہِلومت اُڑاؤ۔ہنسومتوغیرہ وغیرہ۔

 

ان سب میں ہلومت کے حکم پر عمل کرنا عذابِ عظیم تھا۔سیدھے بُت بنے کھڑے ہیں کہ کان پر کھجلی محسوس ہوتی ہے۔اب ہاتھ کو جنبش دینا جرم ہے۔کندھا کان تک نہیں پہنچ سکتا۔کان کا خود ہلنا منشا ئےفطرت نہیں اور وہاں تک ہاتھ لے جانا منشائے سارجنٹ نہیں۔عین اُس وقت ایک مکھی ناک پر نازل ہوتی ہے۔مکھی کو فنا کرنے کی بے پناہ خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے لیکن سارجنٹ سے آنکھ بچا نا کراماً کا تبین سے آنکھ بچانا ہے۔مکھی پر دست درازی کا خیال آتا ہے تو سارجنٹ گو یا ہاتھ ہلانے کے خیال ہی کو دیکھ لیتا ہے اور اپنی غیر تعلم یا فتہ طبقے کی انگریزی میں چلّااُٹھتا ہے don’t kill no flyیعنی مکھی مت مارو۔ہاتھ وہیں کا وہیں سوکھ جاتا ہے اور مکھی نہایت اطمینان سے ناک کے نشیت وفراز کا معا ئنہ کرتی ہے……ایسے اشتعال انگلیز حالات میں بے حرکت کھڑے رہنا صحیح معنوں میں نفس کُشی تھی۔اس وقت زندگی کی واحد خواہش صرف اتنی ہوتی کہ کب ڈرِل ختم ہو اور جی بھر کر ناک اور کان کُھجائیں اور بالآ خرجب ڈرِل ختم ہوتی اور ہم بلا خوفِ تعزیر کانوں کو چھو سکتے اور مکھیوں کواُڑاسکتے تو ہمیں محسوس ہوتا کہ کان کُھجا نا اور مکھی اُڑانا بھی کس قدرعظیم عیاشی ہے بلکہ اِسی خوشی میں وہ آبلے بھی بھول جاتے جواِن آہنی بوٹوں کے اندرہی بنتے اور پھوٹتے تھے۔

 

ڈرل کے بعد تمام پیریڈ پڑھائی یا پستول اور مشین گن وغیرہ کی سکھلائی کے تھے۔اگر چہ لیکچروں کے کمروں تک جانا بھی چَپ راست یا ڈبل کے تابع تھا تاہم کمروں کے اندردست وپا کی حرکات پر پا بندی نہ تھی مثلاً مکھی یا مچھر سے تحفظ ہمارے بس کی بات تھی۔اِن کی نا جائز پرواز پر ہم حسبِ ضرورت ہاتھ پاؤں ہلا سکتے تھے اور فقط اِتنی سی آزادی سے زندگی میں کیف باقی تھا۔

 

            الغرض لفٹینی کا وہ حسین و جمیل قصر جسے ہم نے تصورات کے موقلم سے بنایا اور سجایا تھا پہلے ہی روز منہدم ہوگیا اور یہ ابھی تھی۔جو کچھ آگے ہوا،اس کی رُوداد طویل بھی ہے اور جاں گسل بھی۔آخرایک روز معلوم ہوا کہ ہم لفٹین ہوگئے ہیں!

            چنا نچہ ہم ذاتی تجر بے کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن دیدہ ور پیدا



Post a Comment

0 Comments