Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Tilism-e-Hoshruba By Muhammad Husain Jah|طلسم ہوش رُبا-محمد حسین جاہ

 

طلسمِ ہوش رُبا-محمد حسین جاہ
Tilism-e-Hoshruba By Muhammad Husain Jah

مندرجہ ذیل  اقتباس محمدحسین آزاد کی داستان ’طلسم ہوش رُبا‘ سے ماخوذ ہےجومہاراشٹراسٹیٹ بورڈکےجماعت بارہویں کے اردوکےنصاب میں شامل ہے

 

راوی کہتا ہے کہ جب لقا ہزاز شکل سے بھا گا تھا،حمزہ صاحب قِراں نے لشکرِ ظفر پیکر سے اپنے چار ہر کارے صبا دم، تیز رفتار لقا بے بقا کے ہمراہ روانہ فر مائے تھے کہ جس جگہ یہ مسکن گزیں ہو اور جواسے پناہ دے، اُس بادشاہ کی حقیقت سے اور اُس ملک وسپاہ کی کیفیت سے حضرتِ قدر قدرتِ شا ہنشاہی کو اطلاع دیں۔وہ ہر کارے بہ ہمرا ہیِ لقا یہاں تک آئے تھے۔ انھوں نےبیانِ سپہ سالا رانِ سلیمان ، سب سنا اور حال فون اور ملک کا سب دریا فت کر کے خد متِ امیرِ کشور گیر میں چلنے کا ارادہ کیا۔القصہ قلعے سے نکل کر ما نند صرصر کے روا نہ ہوئے اور اسلطانِ عالی شان سعد بن قبا دکی خدمت میں آکرپہنچے۔وہ اس قدر بہ تعجیلِ تمام آئے تھے کہ پپڑ یاں ہونٹوں پر بندھی تھیں،کنپٹیاں لپکتی تھیں۔اُنھوں نے آکر شہنشا ہِ عالی جاہ کو مجرا کیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا وثنا ئے شہر یاری بجا لائے اور یوں عرض کرتے تھے کہ اے بادشاہِ عالی تبار، نَصفت نشان،لقا کوہِ عقیق پہنچا اور وہاں سکونت ٹھہر ائی ہے۔ بادشاہ نے وہاں کے،اعانت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔باقی اور جوا حوال کہ ہر کاروں نے دیکھا تھا، وہ سب مِن وعَن مفصّلاً گزارشِ خدمتِ سلطانِ عالی شان کیا۔بادشاہ نے اپنے سپہ سالا رحمزہ صاحب قِراں کی جانب دیکھا اور حکم دیا کہ پہلوانِ دوراں عادی کو بلاؤ اور پیش خیمہ طرف کو ہِ عقیق کے روانہ کرو۔ حسبِ ارشادپلٹنیں اور ر سالے بہ کرّوفر،مرکَب ہائے تازی پر سوار، پیا دے بے شمار کوچ کرنے لگے۔بازاریں لشکر کی روانہ ہو ئیں۔خیمہ خر گاہ اُشتر وقاطروں پر بار ہوئے۔ دلا ور مسلحِ مکمل ہو کر چلنے پر تیار ہو ئے۔بادشاہ مع سردارانِ گرامی کے اور صاحب قِراں مع عیا رانِ نامیکے، سوار ہو کر بہ رہبری اُسی طرف چل نکلے۔

قصہ کوتاہ،بعد کوچ ومقام وشام وپگاہ، لشکر نے قریبِ کو ہِ عقیق ورودفر مایا۔ باگاہِ فلک پاے گا ہ نصب ہوئی،بازاریں لشکر میں کھل گئیں، پلٹنیں صحرائے پا کیز ہ اور مقامِ عمدہ میں اتر نے لگیں۔داخلئہ لشکر سے مخا لفوں کے ہوش مثلِ طائرِ پریدہ اُڑے۔ سلیمان نے آمدِ فوج کی خبر سن کر حکمِ ربط وضبطِ ملک،فوج کو اپنی دیا اور درِ قلعہ بند کیا۔تو پیں بر نجی و آہنی ڈھلی ہو ئی لگا ئیں،برج وبارے وکنگُرے وفصیلیں درست ہوئیں۔الغرض یہاں تو یہ تیاری شروع ہوئی اور صاحب قِراں منتظرِ مقابلئہ عدو،سامنے قلعے کے فروکش ہوئے مگر بدیع الزّماں فر زندِرشیدِ حمزہ صاحب قِراں کو ہوا ئے خوش اور صحرائے سبزہ زاردیکھ کر شکارکھیلنے کی ہوس ہوئی،امیر سے اجازت چا ہی۔ امیر خا موش ہو رہے ۔بدیع الزماں اپنی والدہ کے پاس گئے اور گزارش کی کہ آپ مجھے والدِ ما جد سے اجا زت شکار کے لیے جانے کی لا دیں۔ ملکہ نے منظور کیا اور جب امیر بارگاہ میں ملکہ کی تشریف لائے،ملکہ نے شا ہزادے کی سفارش کی۔ امیر نے بِنا چاری رخصت دی مگر فر مایا کہ یہ صحرا تمام ساحرانِ جہاں کا مسکن ہے اس لیے میں اجازت نہیں دیتا تھا کہ شاہزادہ کسی آفت میں مبتلا نہ ہو لیکن تمھا رے کہنے سے ایک روز کی اجا زت دیتا ہوں کہ بعد ایک روز کے پھر آئیں ،زیادہ عر صہ نہ لگا ئیں۔بدیع الزماں نے ارشادِ صاحب قِراں قبول کیا اور سامانا شکا رکھیلنے کا، رات بھردرست ہوتا رہا۔جسوقت صیادِ فلک مشرق سے سبزہ زارِ فلک پر صیدافگنِ ثوابت وسیا رگاں ہوا،وہ آفتابِ عالم تاب بہرِشکار عازم میداں ہوا شاہزادۂ عالی مقام با حشم وخد صحرا میں صیدافگن تھا اور ہر طرف فضا ئے  نز ہتِ دشت وکوہ دیکھتا جا تا تھا،سامنے کچھا رسے ایک آہواٹکھیلیاں کرتا،طرارے بھر تا پیدا ہوا۔ بدیع الز ماں اس کی رعنا ئی اورزیبائی دیکھ کر شیفتہ اور فریفتہ ہوا۔سرداران کو اپنے حکم دیا کہ اس کو زندہ گرفتار کرو، خبردار جانے نہ دو۔بہ مجردِحکم ہمراہیوں نے حلقہ باندھ کر اُسے گھیرا مگر ہرن کنوتیاں بدل کرسرپر سے شا ہزادے کے نکل کر چلا۔بدیع الز ماں نے اس کے پیچھے گھوڑااٹھا یا اور کئی کوس نکل آئے۔سب ساتھی چھٹ گئے اور یہ اکیلے رہے۔اس وقت کہ جب ہرن پر دسترس نہ پہو نچا اور وہ زندہ گرفتار نہ ہوا،فورًا تر کش سے تیزِ مارِ دَہ مشت بحرِکمان میں پیو ستہ کر کے لگا یا۔تیراس کے دوسار ہوا ،وہ ہرن زمین پرگرا،شاہزادے نے مَرکَب سے کود کراسے ذبح کیا۔ جیسے ہی وہ ہرن ہلاک ہوا، ایک صدائے مہیب پیدا ہوئی کہ اے فر زندِ حمزہ! تونے بڑا غضب کیا کہ قتل کیا غزال کو۔ یہ سرحدِ طلسمِ ہوش رُباہے۔ یہاں سے بچ کر جانا اب دشوار ہے۔ شاہزادے نے دیکھا کہ تمام صحرا گر دو غبار سے تاریک ہے،آندھیوں کا طو فان بر پاہے۔بعد لمحے کے شا ہزادے پر بے ہوشی طاری ہوئی پھر جو آنکھ کھلی،اپنے کو قیدِگراں میں پایا۔

 

            یہاں امیّہ بن عَمرونا مدار عیّارجب شہزادے کی تلاش میں آیا،دشت کو تیرہ وتارپایا،قیامت کاآثار دیکھا۔لاش بدیع الزماں کی خاک پر پڑی ہے،وہ چاند سی صورت خون میں بھری ہے۔الغرض عیّار،شہزادے کی لاش سے لپٹ کر رونے لگا اور اپنا گر بیان چاک کیا۔خاک سر پراڑاتا لا شے کو گھوڑے پر ڈال کر لشکرِ صاحب قِراں کی طرف چلا۔راہ میں ہمراہی اور رفیق ،شاہزادے کے ملے۔انھیں جو یہ ماجراغم انگیز نظر آیا،فرطِ الم سے کلیجا منہ کو آیا۔روتے پیٹتے،خاک اڑاتے خدمتِ امیر میں آئے۔جب اہلِ لشکر اور امیرِ نام ورنے یہ سانحہ جاں گزاملا حظہ فر ما یا،بے تامل نالہ وشیون کیا۔سارے لشکر اور محلاتِ عظمٰی میں شورِ گر یہ بکا بلند تھا۔ملکہ گر دیہ بانو ماں شہزادے کی،پچھاڑیں کھاتی تھی۔یہاں تویہ شو رونوحہ وزاری بر پاتھا مگر عمر سے امیر نے فرمایاکہ جلد مرکب کو تیار کر کے لاکہ میں شہزادے کے قاتل کی تلاش میں جاؤں اوراسے قتل کر کے اُس کابھی سر لاؤں۔عمرونے عرض کی کہ اے شہریار،میں نے سنا ہے کہ شا ہزادے کو کسی انسان نے نہیں شہید کیا ہے بلکہ صحراتاریک ہو گیا،کچھ معلوم نہ ہوائےاُس کے کہ یہ لا شئہ بے سر ملا۔امیرنےفر مایا کہ واللہ اس میں کچھ اسرار ہے، اس حال سے آگاہ پروردگارہے۔ بلاؤفرزندانِ خواجہ بزرچمہر وزیرِ نو شیرواں کو۔حسبِ ارشادِ امیر،فرزندانِ خواجہ بزر چمہر کو بلایا اور بار گاہ میں بہ اعزازِتمام صدرِعزّت پر بٹھایا،شاہزاد کا حال پو چھا۔انھوں نے زائچہ کھینچ کر بعد خوض وغورِ بسیار سراٹھا کر فر ما یا کہ اےشہر یارِذی وقار!شہزادہ صحیح وسالم ہے مگر قیدِ شدیدمیں ساحروں کی گر فتار ہے اور جو یہ لاش آپ کے سامنے آئی ہے،ماش کے آٹے کی تصویر بنائی ہے۔آپ اسمِ اعظم پڑھ کر پانی پر پھونکیےاور اس لاش پر چھڑک دیجیے،پھر قدرتِ خالق کا تما شادیکھ لیجیے۔امیر نے اسمِاعظم پانی پردم کر کے لاش  پر چھڑکا، وہ لاش ماش کے آٹے کی نظر آئی۔امیر نے گردن پئے سجدۂ باری جھکائی کہ شکرہے تیرا کہ تونے خبرِ حیاتِ فرزندسنائی۔خاجہ زادوں کو خلعتِ فاخرہ دے کر رخصت فرمایا اور لاش کو پُھکوادیا۔لشکر میں شوروفریادجو بلند تھا،مو قوف ہوا۔سب نے جانِ تازہ پائی،زندہ رہنے کی شا ہزاد کے،خوش منائی۔امیر نے عمرو کوبلا یا اور واسطے خبر گیریِ شاہزادۂ نا مور کے ما مور کیا۔عَمرو نے عیاری سے اپنے جسم کو آراستہ کیا۔زنبیل اور جالِ الیاسی اور گلیمِ عیاری اور کمندِ آصفی اور دیو جامہ وغیرہ کوسنبھالا اور سب تحفے اور تبرک ساتھ لیے۔

 

            راوی کہتا ہے کہ زنبیل ایک کیسہ ہے کہ علاوہ اس دنیا کے، ایک عالم اُس میں بھی آباد ہے،جب چاہو گےاُس میں سے ہر چیز، جو مانگو گے، نکلے گی اور جو چا ہو گے،وہ اُس میں رکھ لوگے۔گلیم عیاری ایسی ہے کہ جب تم اُسے اوڑھ لو گے،تم سب کو دیکھو گے اور تمھیں کوئی نہ دیکھے گا اورجالِ الیا سی یہ صفت رکھتا ہے کہ اگر کروڑوں من کے وزن کی چیز ہو مگر جب تم جال پھینکو گے وہ سواسیر کی ہو کر اُس میں آجا ئے گی اور کمندِآصفی کو پھینک کر جتنا کہو گے،گھٹ جائے گی اور بڑھنے کو کہوگے،بڑھ جائے گی اور کسی چیز سے وہ نہ کٹے گی،نہ ٹو ٹے گی اور دیو جامہ جو پہنو گے،سات رنگ بدلے گا ۔ کبھی سبز ہو جائے گا اور کبھی سرخ،کبھی زردوغیرہ۔انھی اشیا کو عمرو نے درست کر کے واسطے تلاش کر نے بدیع الزماں کے راستہ لیا اور بہ سرعت تمام صحرا کی طرف روانہ ہوا۔

Post a Comment

0 Comments