Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Shaal By Ali Abbas Husaini|شال-علی عباس حسینی

 

شال-علی عباس  حسینی
Shaal By Ali Abbas Husaini

مندرجہ ذیل  اقتباس علی عباس حسینی کے افسانہ ’شال ‘ سے ماخوذ ہےجو     مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈکے جماعت بارہویں کے اردو  کے نصاب میں شامل ہے

 

عبید جب ٹرین سے اُتر اتواس وقت صبح کے ساڑھے چھے بج چکے تھے مگر سورج نے گہرے کہرے میں منہ چھپا رکھا تھا۔یخ پڑرہی تھی۔چار باغ جیسے بڑے اسٹیشن پر جہاں ٹرین کی آمدوروانگی کے وقت کھوےسے کھوا چھلتا ہے۔ایک عجیب طرح کا سنا ٹا تھا۔ اسٹیشن کیا تھا جیسے برات اُتارنےوالا گھر لڑ کی کی رخصتی کے بعد۔بس پانچ سات قلی دِکھائی دیے وہ بھی منہ لپٹیے پالا مارے ہوئے پودوں کی طرح سکڑے سکڑا ئے۔

 

            رات کو ٹرین پر اُس نے خود بھی سردی کی اس تیزی کو بری طرح محسوس کیا تھا۔اس نے برتھ پر اپنا خا صا موٹا گدا بچھا یاتھا۔اس پر دودوکمبل اوڑھے تھے۔ان کے اوپرسے اپنا موٹا اوور کوٹ بھی ڈال لیا تھا مگر پاؤں پھیلا کرنہ سو سکا تھا۔ٹھنڈک کے مارے گٹھری ہی بنا رہا۔اس کا باربار جی چا ہاتھا کہ وہ حمیدہ کی چہیتی شال اٹیچی سے نکال کر جسم پر لیپٹ لے۔یقیناً وہ اس طرح سے خود کو گرما سکتا تھا لیکن اس نے سردی کھائی،تکلیف اُٹھائی مگر اپنی بیوی کی دی ہوئی شال نہ نکا لی۔ڈرتھا اوڑ ھنے لپٹینے میں وہ مَل وَل جائےگی ۔عبید یہ بات کسی طرح پسند نہ کر سکتا تھا۔

            بڑی عزیزتھی  یہ شال حمیدہ کو۔بہت دنوں سے اُس کی خواہش تھی کہ اس کے پاس ایک شال ایسی خوب صورت  اور اتنی اچھی ہو کہ کسی کے پاس نہ ہو۔اب کے اپریل میں عبید جشن بہار کے مشا عرے میں شریک ہونے سری نگر گیا تھا۔وہیں سے یہ شال شہر کی ساری دکا نیں چھان کر وہ حمیدہ کے لیے لا یا تھا۔اس کے چوڑے حا شیے پر بہت ہی عمدہ نازک اور باریک کام بنا تھا اور بیچ والے حصےمیں ہر طرح کے پھول کھلے تھے گلاب ولا لہ،بنفشہ ونر گس،سیوتی اور سو سن،کنول اور کوزہ۔کتنی خوش ہوگی وہ ایسی شال پا کر۔اس کے گالوں پر سرخی دوڑجائے گی اس کی آنکھوں میں ستارے چمکیں گے وہ اسے اوڑھ کر اِٹھلائے گی اور آپ ہی آپ شرمائے گی۔

 

اور جب وہ لکھنٔو پہنچا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے یہ خوب صورت شال حمیدہ کے کندھوں پرڈال دی تھی تو اس کے سارےخواب سچ نکلے تھے۔وہ بو کھلا بھی گئی تھی۔وہ مسکرائی تھی، وہ کھلکھلائی تھی اور وہ بلبل کی طرح چہک بھی اُ ٹھی تھی ۔حمیدہ نے اسے شیشے کی الماری میں رکھا اور اس میں مظبوط قفل ڈال دیا۔یہ الماری کنجوس کے دل کی طرح ہمیشہ بندرہتی۔بس اس کے شیشے دن میں دو دفعہ باہر سے جھاڑدیے جاتے تھے۔عبید نے ایک دوبارٹوکا بھی،شال اوڑ ھنے کی چیز ہے،پر ستش کی نہیں۔ابھی گرمیاں ہیں اس لیے اتنا ہی کرو کہ اسےالماری سے نکال کر دوایک باردھوپ دِکھا دو۔اونی ہے،کیڑا ویڑانہ لگ جائے۔

 

            وہ کہتی برا نہیں لگتا تمھیں ایسی بد شگو نی کی بات زبان سے نکالتے!ارے میں دو تین بار تو اسے دن میں دیکھتی ہوں۔موئے کیڑوں کی کیا مجال کہ اس کے پاس پھٹک سکیں!

 

لیکن اس کے تعجب کی انتہا نہ رہی تھی دو دن پہلے۔اس روز جب اس کڑا کے کی سر دی میں وہ اپنے مختصر سفر پر روانہ ہونے لگا تھا اور ہولڈال میں بستر رکھا جانے لگاتھا تو دونوں کو یاد آیا تھا کہ اس سفر کے لیے کوئی گرام چا در نہیں ہے۔عبید کا نیالحاف تیار نہ ہو سکا تھا۔ حمیدہ تھو ڑی دیر تو سوچتی رہی پھر جھپٹ کر اپنی چہیتی شال نکال لائی۔عبید نے روکا، میں تمھا ری شال نہیں لے جاؤں گا۔سفر میں میلی ہو جائے گی۔مگر وہ کسی طرح نہ مانی۔اس نے شال اٹیچی کیس میں رکھ ہی دی۔ عبید کو بیوی کی اس اتھا ہ محبت کا اندازہ تھا۔ اس نے اپنے طور پر طے کر لیا کہ چا ہے مجھ پر کیسی ہی گزرجائے میں اس شال کو ایک منٹ کے لیے بھی اپنے استعمال میں نہ لاؤں گا اور اسے حمیدہ کو ویسے ہی صاف ستھری بے شکن لا کر واپس کر دوں گا جیسی کہ وہ حمیدہ کے ہاتھوں سے مجھے ملی ہے۔اس نے پورے سفر میں اسی لیے شال نہیں اوڑھی۔اس نے ٹرین میں سردی بھی کھائی مگر شال نہ نکالی۔اس وقت البتہ اس نے شال سوٹ کیس سے نکال کر ہاتھ میں لے لی۔اس کا ارادہ تھا وہ گھر پہنچتے ہی اسے حمیدہ کے سر پرڈال کر کہے گا لو دیکھو، میں جیسی نئی لے گیا تھا،ویسی ہی واپس لے آیا۔تمھاری شال میں مَیں نے ذرابھی میل نہ لگنے دیا۔

 

اس لیے جب وہ گرم سوٹ پر موٹا اوور کوٹ پہنے، گلے کواونی مفلر سے اور ہاتھوں کو چمڑے کے دستا نوں سےچھپا ئے رکشے پر بیٹھا تو اس نے حمیدہ کی شال گھنٹوں پر رکھ لی۔خیال تھا، گھنٹے بھی گرم رہیں گے اور شال میں شکنیں بھی نہ پڑیں گی۔

رکشے والا جوان تھا۔بھرے بھرے شانے چوڑا سینہ مضبوط کمر موٹی موٹی پنڈلیا، بڑے بڑے پاؤں۔اس نے سر دار گردن میں ایک سوتی مفلر پگڑ کی طرح لپٹ رکھا تھا۔وہ آدھی آستین کی خاکی قمیص پر ایک پرانا سینڈوکٹ سویٹر پہنے تھا اور  ٹا نگوں میں خاکی نیکر۔پنڈ لیاں بھی ننگی اور پاؤں بھی ننگے۔ وہ اپنی ٹھنڈک دور کرنے کے لیے رکشا تیز تیز چلا رہا تھا۔رکشے کی اس تیز رفتاری نے ہوا کی دھا ر پر اور بھی باڑھ رکھ دی۔ٹھنڈک عبید کے گرم موزے میں لپٹی اور اونی پتلون میں ڈھکی پنڈلیوں میں تیز کی طرح گھسنے لگی۔عبید نے حمیدہ کی شال کی ایک تہہ کھول کر اسے ٹخنوں پر لٹکا دیا۔

 

عبید نے رکشے والے پر بھر پور نظر ڈالی۔اس کے چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے جھلک رہے تھے۔ عبید نے سو چا کتنا فرق ہے محنت کرنے اور بے کاررہنے میں۔جہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے،وہاں اپنے ہی جسم کی گرمی ایک بجھا ہوا دیا بن جائے گی۔ اسےمحنت مزدوری کی دیا سلائی دِکھاؤ تو اندر کی آگ بھڑک کر باہر آجائے گی۔پھر نہ لحاف کی ضرورت،نہ کسی شال کی۔

 

اس نے پو چھا کہا کے رہنے والے ہو؟

وہ بولا،گو نڈا جِلا۔

عبید نے مسکرا کر پوچھا مہر یاہے؟

رکشے والے نے گردن پھرا کر دیکھا اور کہا ارے پتنی اور بالک نہ ہوتِن تو ایسی سر دی مار کشا چلا یِت۔

عبید نے اور کر یدا،یہیں ہیں شہر میں ؟

وہ بولا،نا ہیں ساب ،اپنا دیس ما۔

عبید نے کہا،جب ہی!

رکشے والا اس جب ہی کا طنز تو کیا خاک سمجھتا مگر وہ گنگنا نے لگا نین لڑی ہیں تو منوا ما کھٹک ہوئی بے کری۔

عبید نے ہنس کر کہا اچھا تم فلم دیکھنے کے بھی شو قین ہو؟

وہ بولا کبھو کبھو نو اب ساب! سال چھے مہینا ما۔

عبید جھنجھلا اُٹھا۔نہ جانے کیوں یہ سارے پر دیسی لکھنٔوکے ہر سفید پوش کو نواب پکارنے لگتے ہیں۔وہی جو محنت ومزدوری سے عاری ہیں وہی بے کاروں کی خاص جماعت وہی پدرم سلطان بود کہہ کر اکڑ نے وکڑنے والے اپا ہج۔وہ کیوں ان میں شمار کیا جائے؟وہ تو صبح سے شام تک اپنےجو تا سازی کے کا رخانے میں جان کھپا تا،پچیس تیس کاریگروں کے کام کی نگرانی کرتا دھو پ لو اور سردی پانی  میں دکان دکان پھر کر سامان خرید تا اور آرڈرحاصل کرتا۔اس طرح خون پسینہ ایک کرتا تب جاکر چار پیسے آتے۔

 

عبید اسی طرح پیچ وتا رہا کہ نم ہوا کے دوش پر کہیں دور سے ایک دل دوز کراہ سنائی دی۔ کراہنے والا کچھ منمنا بھی رہاتھامگر صاف نہیں سنا ئی دے رہا تھا۔ پھر بھی آواز میں انسانی دل کے لیے ایک نا قابلِ برداشت درد تھا۔ سینے کو بر مادینے والا آنکھوں میں مرچیں لگا دینے والا۔

عبید نے گھبرا کر رکشے والے سے پوچھا ارے یہ کون کراہ رہا ہے بھائی؟

اس نے رکشادھیما کر کے آستین سے منہ کا پسینہ پو نچھتے ہوئے کہا اواک پگلی ہو ساب۔اوہے ایک چھوٹا بالک چھاتی سے لگائے سڑک پر پڑل ہوبس ہر وکھت چیکھت ہو:ارے مور بالک بچا لیو۔ای سردی سے مرت ہو! دوئی دن سے سڑک پر پڑل چیکھت ہو۔

عبید نے  تعجب سے پوچھا ارے تو اتنے بڑے شہر میں کسی اللہ کے بندے نے اسے کوئی رضا ئی یا کمبل نہ اوڑ ھادیا؟

وہ بولا ہما سما جےکے پاس رجائی کمل ہوئی اوکھوداوڑھی کی پگلی کادے ای؟

عبید نے کہا ارے تو کیا ہمارے شہر کے رئیس امیر سیٹھ سا ہوکار سب مرگئے؟

اس نے رکشا روک کر بڑے زور سے کھنکار کر سڑک پر تھو کا۔پھر بولا اجی نواب ساب! بڑا لوگ موٹر ما سیسہ چڑھائے پوں پوں کرت سن سن نکل جات ہیں۔اوکا ہے  کا پگلی کی اور دیکھین۔او آپن دو سواَڑ ھائی سو کا کمل پگلی پر دیہن آپو کا بات کہت ہن؟ نواب ساب!

 

اور اس نے  پھر رکشا تیز چلا نا شروع کیا۔آوازاب بالکل صاف صاف سنائی دینے لگی تھی۔ارے بھگوان کے نام پر بچا لو اس بالک کو۔کوئی وستراس کو اوڑ ھا دو۔ مررہا ہے یہ سردی سے۔آہآہ۔بھگوان !کیا اس پر تھوی کہیں دیا نہیں؟

عبید نے دیکھا پگلی فٹ پاتھ پر پڑی ہے۔ بس ایک چھوٹی سی دھوتی لپٹی ہے۔ اسی کا ایک کونا پیٹ پر پڑا ہے۔اس چیتھڑے میں سے ایک بچے کا سر دِکھا ئی دے رہا ہے۔پگلی کے بال مٹی میں اٹے ہیں۔اس کی آنکھیں بندی ہیں اور وہ کر اہے جارہی ہے آہ آہآہ!بھگوان کیا کہیں دیا نہیں؟

 

عبید کے جسم میں بجلی کا کرنٹ سا دوڑ گیا۔دل ودماغ جھنجھنا اُٹھے۔وہ اس طرح کا نپاکہ گھنٹے پر رکھی شال پھسل کر اس کے جوتے پر آرہی ۔وہ اسے جھک کر اُ ٹھا تے بے سا ختہ چیخ اُٹھا رو کو رِکشا!

رکشے والے نے  پورا بر یک لگایا۔رکشا جھٹکے سے رُک گیا۔اس نے عبید کو سوالیہ انداز سے دیکھا۔عبید نے شال اس کی طرف بڑھاکر کہا،لویہ شال اسے اوڑھادو۔

رکشے والے کا منہ تعجب سے کھُل گیا۔اوپگلی کا؟ اس نے پوچھا۔

عبید نے کہا ہاں اسی کو۔

رکشےوالے نے اپنی سیٹ سے اُتر تے ہوئے پھرا حتجاج کیا ارے ای چدریابہت بڑھیا ہے نواب ساب۔

عبید نے  ڈانٹ کر کہا،بکومت۔جاکے اُسے اوڑھا دو۔

مگر وہ خود نہ تو اپنی جگہ سے ہلا اور نہ اس نے پگلی کے پاس جانے کی ہمت کی۔بڑی گندی تھی وہ۔اسے تو پگلی کو دیکھنے ہی سے گھن آتی تھی۔اس نے اِدھر اُدھر سڑک پر گھبرائی گھبرائی نظر ڈالی،کوئی دیکھتا تو نہیں اس کی اس بے وقوفی کو۔کس قدر ہنسے گا اپنے دل میں اس حرکت پر۔ پگلی اور ایسی خوب صورت اور قیمتی شال۔رکشے والے نے پگلی کے پاس پہنچ کر شال کا ایک سرا پکڑ کر اسے پھیلا نے کے لیے زور سے جھٹکا اور اس کے میلے گھناؤ نے جسم پر حمیدہ کی پسندیدہ شال کے پھول بکھیر کر کہا،لے رے پگلی۔تو ہار قسمت جاگل۔اب خوب گر ماکے لیٹ۔

 

            پگلی نے شال کی سر سراہٹ جسم پر محسوس کی۔خون کبوتر آنکھیں کھول کر رکشے والے کو دیکھا۔دانت نکال کر اس طرح مسکرائی کہ چہرہ اور بھی ڈراؤ نا ہو گیا۔رکشے والا جلدی سے پیچھے ہٹا اور رکشے پر بیٹھتے ہی اسےتیز چلا نے لگا۔

اور عبید اس سوچ میں پڑ گیا کہ شال دینے کو تو دے دی پگلی کو مگر میں کہوں گا کیا حمیدہ سے؟یہی کہ میں نے اس کی شال ایک پگلی کو دے دی؟کیا حمیدہ اسے اپنی تو ہین نہ سمجھے گی؟اور اگر کہیں اس سلسلے میں اس کی چشم مے گوں میں آنسو آگئے؟یا کہیں اُتر گیا اس کا ہنس مکھ چہرہ تو؟ عبید نے طے کیا مجھے بات بنا نی ہی پڑے گی۔ مجھے جھوٹ بولنا ہی پڑے گا مگر ایسا جھوٹ کہ بجائے آنکھوں سے آنسو کے اس کے منہ سے کلمئہ شکر نکلے۔

 

حمیدہ نے میاں کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔اسے اوور کوٹا اُ تارنے میں مدددی۔ دہکی ہوئی انگیٹھی اس کے پاس لا کر رکھ دی۔گرم گرم پانی سے ہاتھ منہ دھو نے کا انتظام کیا،جلدی جلدی کھو لتی ہوئی چائے تیار کر ا کے پلائی۔جب وہ سوٹ اُتار نے اور کپڑے بدلنے دوسرے کمرے میں چلا گیا تو حمیدہ نے اٹیچی کیس کھولاکہ اس کے کپڑوں میں رکھ دے۔ساری چیزیں موجود تھیں،اسے صرف اپنی شال نہ دِکھائی دی۔اس نے ہو لڈال بھی کھول ڈالا۔وہاں بھی شال غائب تھی۔

اس نے گھبرا کر عبید سے بلند آوازمیں پوچھا میری شال کیا ئی؟

عبید نے جھوٹی کہانی گھڑلی تھی۔وہ بیوی کے قریب آکر بیٹھ گیا اور بولا،وہ تو ریل میں چوری ہوگئی۔

حمیدہ کا چہرہ تمتما اُٹھا۔وہ بولی ارے یہ کیسے؟

عبید نےکہا رات ریل میں دو کمبلوں سے سردی نہ گئی تو میں نے اوپر سے تمھاری شال بھی ڈال لی۔ ،معلوم ہوتا ہے وہ کروٹ لینے میں پھسل کر بر تھ کے نیچے گر پڑی۔میں سورہاتھا کہ دو مسا فر اُتر گئے۔انھی میں سے کوئی اسے بغل میں دبا کر لے گیا۔

حمیدہ روہانسی آواز میں کو نسے لگی موئے کاہا تھ سڑ جائے۔میری شال اوڑھنا اسے کبھی نصیب نہ ہو۔اس کی قبر میں کیڑے پڑیں۔کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

ما ما عیدُن عبید کے ناشتے کے لیے ہدایت لینے آئی ہوئی پاس ہی کھڑی تھی۔وہ بولی اَے ہے بی بی اتنی سی بات پر روتی ہیں!خدا کا شکر کیجیے کہ اللہ آمین میاں سلامت پلٹ آئے۔صدقہ اُتاریےشکر کا سجدہ کیجیے۔

 

حمیدہ کا موڈ بالکل بدل گیا۔اس نے جھٹ آنکھیں پو نچھ ڈالیں اور سوارو پیہ عیدُن کی طرف بڑھاکر بولی سچ کہتی ہو بوا،میں بڑی ناشکری ہوں۔یہ سواروپے لو اور اسے ایک سینی میں سوا سیر ماش اور سواپاؤ کڑوے تیل کے ساتھ رکھ کر ان کے ہاتھ سے چھوا کر کسی فقیر کودے دو اور میں جاتی ہوں دوگانہ پڑھنے۔اور فوراً ہی وضو کرنے لگی۔عبید نے شرم سے گر دن جھکا لی اور پانی پانی ہوگیا۔جھوٹ بھی کس قدر کثیرالا ولاد ہے۔ایک بولوجھٹ اس کے پیٹ سے دس پیدا ہو جائیں گے۔ پھر بھی اس کا جھوٹ کتناشیریں،کتنا میٹھا نکلا!حمیدہ کی آنکھیں بھیگیں تو شکر خدا میں۔

 

دوسرے دن جب ٹھنڈی ہوا ذرا گرمائی تو پانچ بجے عبید کا رخانے سے پلٹتے وقت اس سڑک پر مڑگیا جدھر پگلی ملی تھی۔اس نے دیکھا میو نسپلٹی کے ملازم پگلی کی اکڑی ہوئی لاش ایک ٹھیلے پر لا درہے ہیں۔اس کے جسم پروہی میلی پھٹی ہوئی دھوتی ہے۔اس کا مرا ہوا بچہ اسی طرح چھاتی سے چپکا ہواہے اور حمیدہ کی شال کا دوردور تک پتا نہیں!دفعتہ عبید کا منہ اتنا کڑوا ہو گیا کہ اس نے ایک جاہل بے پروا شہری کی طرح سڑک پر تھوک دیا۔

Post a Comment

0 Comments