Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Sipahi aur But Mar By Shamsur Rahman Faruqi|سپا ہی اور بٹ مار-شمس الرحمن فاروقی

 

سپا ہی اور بٹ مار-شمس الرحمن فاروقی

 Sipahi aur But Mar By Shamsur Rahman Faruqi 

مندرجہ ذیل  اقتباس شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’قبض اماں‘ سے ماخوذ ہےجو     مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈکے جماعت بارہویں کے اردو  کے نصاب میں شامل ہے

 

ایک بار تھا نیسر کے علاقے سے اطلاع آئی کہ ہندوؤں نے ایک تالا بِ قدیم کواز سرِ نو تعمیر کر کے وہاں میلہ ایک ماہ بہ ماہ منعقد کرنا شروع کیا ہے اور پوجا پاٹھ بھی کرتے ہیں اور گھنٹ نا قوس بھی بجتے ہیں۔ پس اس باب میں حکمِ عالی کیاصادر ہوتا ہے؟ سلطان والا شان نے مفتیِ اعظم سےمشاورت کر کے فر مان لکھوایا کہ وہ اپنے مذہب پر ہیں پس جب تک ان کے منا سک ور سوم کے باعث کوئی خطر امن وامان کے لیے نہ ہو ان سے ہر گز کچھ تعرض نہ کیا جائے۔

 

انتظامِ سلطنت میں،ہشیاری اور خبر داری کی غرض سے حضرت دہلی اور اس کے گردونواح میں اسّی ہزار مسلح فون ہر وقت تیار رہتی تھی ۔کہیں سے ذرابھی بدامنی کی خبر آئی اور جُیوشِ سلطانی حرکت میں آگئے۔تغلق آباد غیاث پور بیگم پورہ، سیری اور کیلو کھیڑی جو یا یۂ تخت کے پرانے شہر تھے،ان سب میں میدان وسیع ومر تفع ومسطح دیکھ کر فو جوں کے لیےمقرر کر دیے گئے تھے۔ میں جس فون میں تھا،وہ غیاث پورسے ذرا ورے کنارِ جمنا پر قیام کرتی تھی۔اس ندی کوجن نے دیکھا ہے، وہی اس کے وسیع پاٹ کا قیاس کر سکتے ہیں۔برساتوں میں ندی پر دریائے اعظم کا گمان ہونے لگتا۔غازی آباد میں ہنڈن کے ورلے کنارے سے کچھ آگے جنوب کی طرف سے لے کراوکھلے تک سارا علاقہ پانی سے بھر جاتا۔اسی بنا پر اس علاقے کو خَلق اللہ طنزاً پٹ پڑ گنج کہنے لگی تھی حالانکہ وہاں مچھروں،پسوؤں، جو نکوں اور دیگر لساع کیڑوں کے سوا گنج کے نام پر کچھ نہ تھا۔

 

واللہ!وہ بھی کیا زمانے تھے۔بارہ برس میں میرا در ماہہ بارہ تنکے سے بڑھتے بڑھتے بیس ہوگیا تھا۔اس زمانے میں پانچ تنکا ماہانہ پانے والے اجلے خرچ سے رہتے تھے۔سلطان بہلول لودھی کو اللہ بخشے،ان کا جاری کیا ہوا تا نبے کا سکہ بہلولی کہلاتا تھا۔وہ اب بھی رائج تھا اور اس میں طاقت اس قدر تھی کہ آدمی یہاں سے کول تک کا سفر اپنے گھوڑے کے ساتھ کرتا تو ایک بہلولی اس کے لیے کافی ہوتا ۔ مجھے اپنے گھوڑے کے سازو یُراق ،سائیس اور اسلحے کی دیکھ بھا لا پر بہت صرف کرنا پڑتا تھا،پھر بھی میں ہرمہینے تین سے چار تنکے گھر بھجوادیا کرتا تھا۔

 

اب سلطان سکندر کایہ اکیسواں سنئہ جلوس تھا۔میری بیٹی بارہ برس کی ہوکر تیر ھوویں میں لگی تھی۔گھر سے خبر آئی کہ اس کی سگا ئی اور پھر بیاہ آئندہ برداتوں سے پہلےہو جائے تو خوب ہو۔مجھے بلا یا گیاتھا کہ جاکر سب معاملات طے کردوں۔ہر چند کہ خداونِد عالم سلطان سکندر نے شرع شریف کی پابندی پر بہت کچھ زور دیاتھا لیکن ہم ان اطراف کے گنوار مسلمانوں میں ہندوؤں کی بو باس ابھی بہت کچھ باقی تھی۔ جمعے کےسواہر دن ہم لوگ ہندوانی پہنتےتھے۔جمعے کو البتہ دو بر کاڈھیلا سفید پا جا مہ گاڑھے کا اور محمودی کرتا پہنا جاتا تھا۔ہماری عورتیں گھر سے باہر نکلتی تھیں لیکن لمبا گھو نگھٹ کاڑھ کر۔ہرگھر میں ایک صندوق تھاجس میں دیوالی اور دسہرے اورعید،بقرعید،شُبرات کے لیے رو پیاپس انداز کیا جاتا تھا۔شادی کی رسمیں بہت کچھ ہندوانہ تھیں۔کنیادان یاجہیز کی صورت نہ تھی لیکن لڑکے والے شادی سے پہلے منگنی لے کر ضرور آتے اور اس موقعے پر شادی سے کچھ ہی کم خرچ ہوتا۔نکاح کے بعدرخصتی(جسے ہم لوگ گون یا گونا کہتے تھے)اکثر بہت دیر سے ہوتی تھی۔ہندوؤں کی طرح ہمارے یہاں بچکا نہ شادی کا رواج تو نہ تھا لیکن منگنی،پھر نکاح پھر گون کی رسمیں کچھ نہ کچھ وقفے سے ادا ہوتی تھیں۔

 

جیٹھ نکل کر اشاڑھ کی آمد آمد تھی جب میں نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔تین ساڑھے تین سو تنکوں کا انتظام میں نے کر لیا تھا کہ مصا رفِ شادی اس سے کم بھلا کیا ہوں گے۔ارادہ تھا کہ شام ہونے کے پہلے لیکن عصر کے بعد چل نکلو ں کہ موسم  ٹھنڈا ہو چکا ہوگا۔ایک منزل کرتے کرتے غروب آفتاب ہونے لگے گا،کہیں کوئی اچھی سرائے دیکھ کر رات گزارلوں گا اور صبح ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے گاؤں ننگل خُردپہنچ لوں گا۔زادِ سفر بہت تھوڑارکھا،تحفہ تحائف کی ضرورت نہ تھی کہ ساراسامانِ شادی کے لحاظ سے گھر کی عورات ہی کو خیرید کرناتھا۔سواری کے لیے گھوڑا تھا ہی اور کچھ درکار ساپا ہی کو نہ تھا ۔میرا عاستہ نہر فیر وز شاہی کے بائیں کنارے سےلگا ہوا،کئی کوس چل کر پھر نہر سے کٹ جاتاتھا۔

وزیر پور پر نہر فیروز شاہی خودہی خم کھا کرکرنال اور حصارکی جانب رواں ہو جاتی تھی۔دورویہ گھنے پیڑ اور آتی برسات کے با دلوں کیدھندلی روشنی نے نہر کے دونوں طرف نیم تار یکی سی پیدا کردی تھی۔ایک جگہ خم اس قدرسخت تھا کہ پہلے اور بعد دونوں سرے نظرنہ آتے تھے۔خم میں داخل ہو جائیں تو گویا دونوں طرف کی راہ بند ہو جاتی تھی لیکن خطر کوئی نہ تھا۔حکومت میں سلطان والا شان کی راہیں سب محفوظ تھیں اور یہ جگہ تو حضرتِ دہلی سے کوئی پانچ چھے کروہ تھی۔درحقیقت میرے لیے جگہ رات کے پڑاؤ کی یہاں سے بہت دور نہ تھی۔میں گھوڑے پر سوار گنگنا تا دُلکی چلتا چلا جارہا تھا۔ سامنے ایک پُلیا تھی جس کے نیچے نالہ ابھی خشک تھا۔پلیا کے ورلی طرف ایک بڑھیا،نہایت تباہ حال نظرآئی۔مجھے دیکھتے ہی اس نے کچھ دعا ئیہ لہجے میں مگر ذرا بلند آواز میں پکارا،اکیلے دُکیلے کا اللہ بیلی!

 

پھر اس نے بہت مسکین لیکن پھر بھی بلند آواز میں مجھ سے کہا،اللہ کی راہ میں کچھ دے دوسیٹا۔بیوہ دکھیا پر ترس کھاؤ۔

میں نے سوچا،سفر میں ہوں نیک کام کے لیے جارہاہوں،اس وقت اسے کچھ سے دوں تو نیک شگون ہوگا۔پھر میں نے گھوڑا آہستہ کیا،راس کو بڑھیا کی طرف موڑکر جھکا،شلو کے کی جیب میں ہاتھ ڈالا کہ کچھ نکال کر بڑھیا کو دے دوں۔یک مرتبہ کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا۔میں غصّے میں اُس کی طرف مڑکربدز بانی کرنے ہی والاتھا کہ کسی اور نے ایک دھکااور دیا۔میں بے قا بو ہو کر بائیں طرف کو لڑ کھڑایا۔گھوڑاالف ہونے لگا۔راس میرے ہاتھ سے نکل گئی۔گھوڑاالف ہو کرکدھرگیا،یہ میں نہ دیکھ سکا کہ کسی نےاتنی دیر میں میرے سر پر کالا کپڑا ڈال کر مجھے اندھا کر دیا تھا،کپڑااتنا موٹا اور پسینے کی بدبوسے بھراہوا تھا کہ مجھے ابکائی آگئی اور میری سانس رکنے لگی۔کپڑا فوری طور پر میری گردن پر کس دیا گیا تو میں سمجھا کہ یہ بٹ مار ہیں۔جان نہ بچے گی،میری پیٹی کاکیا ہوگا میں نے کمر سے خنجر نکالناچاہا کہ ایک دو کو ختم ہی کردوں۔یہ نہیں جانتے کہ کس کے گھر پیعانہ دیا ہے۔ایک دو کو تو مارہی کر مروں گا۔

 

            میری سانس اب بالکل ہی رکی جارہی تھی۔ابکائیوں اور خنجر نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کو ششوں میں سانس ٹوٹی جاتی تھی۔میں نےپوری قوت سے چِلّا کران کوبرا بھلا کہنا چاہا لیکن اب تک میری مشکیں بھی کس لی گئی تھیں۔میری کمر میں ہمیا نی بندھی ہوئی تھی۔اسے نہا یت صفائی سے کاٹ کر نکال لیا گیا۔گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی پھر کسی نے اس کوچمکارااور چپ کیا۔گھوڑوں کی چوری میں بھی ظالم اس غضب کے مشاق تھے کہ بہ ظاہر گھوڑا بھی پلک جھپکتے میں رام ہوگیا۔سارا کام مکمل خاموش میں ہوا تھا۔ پھر میرے سر پرسے کپڑا کھینچ لیا گیا لیکن اس سے پہلے کہ  میں کچھ کر سکتا میرے منہ میں ایک اورکپڑا پہلے سے بھی زیادہ بد بودار اور متعفن ٹھونس کر ساتھ ہی ساتھ آنکھو ں پر پٹی باندھ دی گئی۔پھر کچھ دوڑ تے ہو ئے قد موں اور گھوڑے کی ہلکی ٹاپ کی آواز۔دونوں آوازیں بہت جلد مدھم ہو کر غائب ہو گئیں۔کسی کے سانس لینے کی بھی آواز نہ سنائی دیتی تھی بات کرنے یا کھا نسنے کھنکھار نے یا ہنسنے کی تو بات ہی کیاتھی۔میں یہ تو سمجھ ہی گیا کہ یہ پرلے درجے کے مشّاق بٹ مارہیں اور وہ بڑھیا ان سے ملی ہوئی تھی لیکن یہ بھی تھا کہ وہ مجھے جان سے مار نانہ چا ہتے تھے۔ان کا منشا محض یہ تھا کہ مجھے بے دست وپا کر کے چھوڑدیں اور اتنی دور نکل جا ئیں کہ میں ان کا تعاقب نہ کر سکوں اور نہ کسی کو آگاہ ان کے بارے میں کر سکوں۔

 

مجھے رنج سے بڑھ کر غصہ تھا کہ میں سارے عالم میں مانے ہوئے سلطان کی سارے عالم میں مانی ہوئی فوج کا سپا ہی اور یوں کسی کچھوے کی طرح پکڑ لیا جاؤں کہ مدا فعت اپنی میں ایک وار بھی نہ کر سکوں۔لعنت ہے ایسی سپہ گردی پر اور تُف ہے ایسی سلطانی پر کہ رعا یا یوں بے کھٹکے دن دہاڑے لٹ جائے! میں یہاں یوں ہی مجبور پڑا رہا تو کیا پتا رات میں کسی موذی جا نور کا شکار ہو جاؤں۔کیاخبر مجھے کوئی اور بٹ مار قتل کر کے جو کچھ میرے بدن پر کپڑے اور تھیلی میں ستواور جلیبیاں ہیں اور شلو کے کی جیب میں چند سکے بہلو لی ہیں،انھیں بھی لے کر چمپت ہو جائے۔میں نے چیخنا چا ہا لیکن وہ متعفن کپڑا میرے حلق تک یوں ٹھنسا ہوا تھا کہ میں اگر بولے کی کو شش میں منہ یا حلق پر کچھ زیادہ زور ڈالتا تو کپڑاشاید میرے حلق کے اندر ہی ُتر جاتا۔وقت کتناگزر گیا تھا،مجھے اس کاکچھ علم نہ تھا۔مغرب تو ہو ہی چکی تی لیکن کہیں دور سے بھی اذان کی آواز یا مندروں میں گھنٹے کی پکار یا چراگاہ سےواپس ہوتے ہوئے کسان چر واہے کے ساتھ مو یشیوں کے ریوڑوں کی گھنٹیوں کی آواز،کچھ بھی نہ سنائی دیتی تھی۔دانہ دُنکا چن کر اپنے گھو نسلوں کو لو ٹنے والی چڑیوں کے جھنڈا گر تے تو یا توابھی واپس نہ ہو رہے تھے یا وہ بھی شام کی تنہا شفق میں چپ چپا تے نکل گئے تھے یا اگر واز کوئی سنا ئی دینے والی تھی بھی تو زور سے چلا نے کی کو شش سے میرے کانوں میں سائیں سائیں اس قدر ہونے لگی تھی کہ کچھ سن لینا مشکل تھا۔

 

کیا بہت دیر ہو گئی تھی؟کیا اب کوئی آنے والا نہیں ہے؟ابھیابھی میں نے شیر کی دہاڑسنی تھی۔شیر تو اس علاقے میں تھے نہیں،ہاں گُلدار بہت تھے۔گلدار تو جمنا کے کنارے کی کچھا روں میں دہلی سے کر نال تک چھو ٹے ہوئے سانڈوں کی طرح بے روک ٹوک گھومتے تھے اور بھیڑ یے بھی۔گلداروں کی تو ہمتیں اس قدر کھلی ہوئی تھیں کہ دہلی کے مضا فات میں جو آبادیاں بہ وجہِ نقلِ مکا نی کے ذرا چھِدری ہو جاتیں،ان کے خالی گھروں میں گلدار آباد ہو جایا کرتے تھے۔یہاں تو میں جمنا کے کنارے سے دور تھا۔سلطان فیروز شاہ خلد مکا نی نے یہ نہر بنوائی ہی اسی لیے تھی کہ جمنا کا پانی جن علاقوں میں پہنچتا نہیں ہے وہاں بہ ذریعہ اس نہر کے پہنچ جائے لیکن یہاں بھی اب گھنے درختوں اور نہر کی رطوبت نے کچھار جیسا سماں پیدا کر دیا تھا۔سلطان فیروز کو اللہ نے جنت میں اونچا مقام ضروردیا ہوگا۔انھوں نے اس راہ میں اور کول کی راہ میں جگہ جگہ شاہی سرائیں بنوا ئی تھیں جہا ں کوئی بھی مسا فر کچھ رقم دیے بغیر ٹھہر سکتا تھا اور اچھا ہی تھا کہ انھوں نے یہ حکم دے دیا تھا کہ سراؤں کا خرچ تمام خزانۂ سلطانی سے ادا ہو ورنہ مجھ جیسے لٹے پٹے مسا فر کو تو راہ میں ایک وقت کی روٹی اور سر چھپا نے کے لیے چھت کے لا لے پڑجاتے۔

 

میں نے بہت چاہا کہ راہ کے کسی پتھر سے رگڑ کر اپنے ہاتھوں کو بند ش سے آزاد کرالوں لیکن ایک تو اس اند ھیرے میں پتھر کہاں ملتا پھر میری آنکھوں پراندھیری جو چڑھی ہوئی تھی اور ہاتھ پیٹھ پر بندھے ہوئے تھے۔ پاؤں کے بند کور گڑ کر کاٹنے کی کوشش میں جگہ جگہ خرا شوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا تھا۔

 

رات توبے شک ہو چکی ہو گی۔کہیں درختوں کے پیچھے کچھ کھسر پھسر تو نہیں ہو رہی ہے؟کہیں وہ واپس تو نہیں آرہے ہیں؟یہ آواز کیسی ہے؟ میں نے بہت غورسے سننا  چاہا لیکن کا نوں میں سائیں سائیں اب بھی ہو رہی تھی۔ہاں یہ کچھ نئی سی آواز تھی۔ٹھہر ٹھہر کر آرہی تھی۔کہیں کسی مندر میں گھنٹ ناقوس تو نہیں بج رہا؟نہیں یہ تو گہری اور دور تک پھیلنے والی آواز تھی ٹنٹننٹنذرارک رک کرکوئی فیل نشین ادھر آرہا تھامیرا دل بَلّیوں اُچھلنے لگا۔شا ید میری جان بچ ہی جا ئے گی۔ ہاتھی کی گھنٹیوں آواز نزدیک آئی آہستہ ہوئی ٹھہر گئی۔

 

معتبر سنگھ ذرادیکھنا۔یہ راہ میں کیا پڑاہوا ہے؟ مضبوط ٹھہر ہوئی آواز لیکن کسی فوجی عہدے دار یا شاہی اہل کار کی نہیں بلکہ کسی ایسے شخص کی تھی جو عیش وعشرت میں پلا بڑھا رئیس زادہ ہو۔نہیں ابھی اترونہیں پاس سے دیکھو۔

میں نے ہاتھ پاؤں ہلانے کی سعی اور تیز کردی کہ مہاوت سمجھ لے کہ میں زندہ ہوں۔

عالی جاہ!لگتا ہے ڈاکوؤں نے کسی شخص کو گھا ئل کر کےڈال دیا ہے۔ نہات مو دَّ ب آواز آئی۔

نیچے اترو۔اس غریب کی کیفیت در یا فت کرو۔اچھا یوں کرو۔ہاتھی کو ذرااور آگے لے جا کر کہوں کہ سو نڈ سے اس آدمی کواٹھا کر اوپر میرے پاس لے آئے۔چلو شا باش۔

 

معتبر سنگھ نے ہاتھی کو کچھ آگے بڑھا یا لیکن کتنا اس کا مجھے اندازہ نہ ہو سکا۔معتبر سنگھ نے ہاتھی سے سر گوشی میں کچھ کہا اور کئی بار کہا۔پھر مجھے لگا کہ کوئی بہت ہی طا قتوراور کئی گز لمبا موٹا اجگر مجھے با نہہ میں لپیٹ کر بَلوں میں اپنے اٹھائے لیے جارہاہے۔میں نے سہم کر خود کو چھوٹا کرنے کی کو شش کی لیکن کہاں میں کہاں وہ زبردست بادلوں جیسا زور۔آن کی آن میں ہاتھی نے مجھے رئیس کے ہو دے کے آگے مہاوت اور مالک کے بیچ کی جگہ میں دھانس دیا۔بلا سےجگہ تنگ تھی لیکن اب میں ضیق جان سے تو بچ نکلاتھا۔

 

معتبر سنگھ نےیا شاید مالک نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا۔مجھے بہ آسانی اس عفونت سے بھرے اور شاید تیل اور تھوک سے بھی چکٹے ہوئے میرے حلق میں ٹھنسے ہوئے کپڑے اور آنکھ کی پٹی سے آزاد کر لیا گیا۔تا ہم مجھے اپنی آواز دوبارہ حاصل کرنے میں کچھ وقت لگا۔تھوک کو بہ مشکل گھونٹتے ہوئے میں نے فیل نشین کے سوال کے جواب میں مختصر لفظوں میں اپنی بپتا کہہ سنائی۔

 

تو سپا ہی جی تم دو ہرے خوش نصیب تھے۔ان لوگوں نے تمھیں زندہ چھوڑ دیا اور پھر ہم ادھر آنکلے۔

بندے کابال بال آپ کے حسان سے گُندھا رہے گا۔میں تو سمجھا تھاکہ شیر بھیڑ یا کوئی نہ کوئی مجھے کھا ہی لے گا۔

خیر رسیدہ بود بلائےہوا سو ہوا۔میں بہادر گڑھ جارہا ہوں۔وہاں تک بہ آسانی تمہیں پہنچا دوں گا۔آگے جو تمہاراجی چا ہے۔

Post a Comment

0 Comments