Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

اپنے ہمسایے سےکنہیا لال کپور Apne Hamsaye Se By Kanhiyya Lal Kpoor

 

اپنے ہمسایے سےکنہیا لال کپور
Apne Hamsaye Se By Kanhiyya Lal Kpoor

مندرجہ ذیل مضمون مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایند ہائر سیکنڈری ایجوکیشن   کی جماعت دہم کے مضمون اردو سے ماخذ ہے۔ یہ مضمون طلباء ، اساتذہ اور سرپرستوں کی رہنمائی کے لئے یہاں شائع کیا جاتا ہے۔

            آؤ میاں سمجھوتا کر لیں۔ آج تک ہم ایک دوسرے پر رعب جمانے کے لیے ایسی باتیں اور حرکتیں کرتے رہے ہیں جنھیں فضول ہی نہیں ، مضحکہ خیز کہا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے، آخر ہم کب تک ایک دوسرے کو محض مرعوب کرنے کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے رہیں گے یا جھوٹ بول کر اپنی عاقبت خراب کریں گے؟ کیوں نہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی رئیس ابن رئیس نہیں بلکہ تم ایک معمولی تاجر ہو اور میں ایک معمولی معلم ہوں اور دونوں پچھلے پانچ برس سے ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی بیکار کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اگر تم کہتے ہو کہ تمھارا بھائی دہلی میں مجسٹریٹ ہے تو میں تمھیں مطلع کرتا ہوں، میرا بھائی اللہ آباد ہائی کورٹ کا حج ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا بھائی کسی مجسٹریٹ کا چپراسی ہے اور میرا کوئی بھائی ہی نہیں کیونکہ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔

            دو سال ہوئے تم نے کہا تھا، میں بیوی اور بچوں کے ساتھ کسی صحت افزا مقام غالباً نینی تال جا رہا ہوں۔ اور میں نے تمھیں بتایا تھا، میں بھی مع اہل و عیال اوٹا کمنڈ جارہا ہوں۔ لیکن تم نینی تال گئے اور نہ میں اوٹا کمنڈ ۔ تم نے وہاں نہ جانے کا یہ بہانہ ڈھونڈا کہ یک لخت تمھاری بیوی کی طبیعت خراب ہو گئی اور ڈاکٹر نے اُسے گھر پر مکمل آرام کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے اوٹا کمنڈ نہ جانے کی یہ وجہ بتائی کہ میرے سالے کی شادی ہے اور مجھے اُس کا انتظام کرنا ہے۔ لطف یہ ہے کہ مجھے معلوم تھا، تمھاری بیوی بھلی چنگی ہے اورتمھیں پتا تھا کہ میرے سالے کی شادی تو کیا ، ابھی سگائی تک نہیں ہوئی ۔ پچھلے دنوں جب تم نے مجھ پر رعب جمانے کے لیے قسطوں پر ایک فریج خریدا تو میری بیوی میرے سر ہوگئی کہ ہمارے گھر میں فریج ضرور ہونا چاہیے۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے فریج خریدنا پڑا۔ اب سنا ہے کہ تم قسطوں پر ٹیلی وژن سیٹ خریدنا چاہتے ہو۔ خدا کے لیے ایسا نہ کرنا۔ ورنہ میں تباہ ہو جاؤں گا۔ فریج کی قسط بھی بڑی مشکل سے ادا کرتا ہوں اور اگر ٹیلی وژن کی قسط بھی ادا کرنی پڑی تو میرا تو دیوالہ ہی پٹ جائے گا۔ میں جانتا ہوں، کم و بیش تمھارا بھی یہی حال ہے۔ یعنی بقول شاعر

تم مسکرا رہے ہو مگر جانتا ہوں میں

بہتر تمھارا حال نہیں میرے حال سے

            یہ دوسری بات ہے کہ تم کھلے بندوں کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کرو گے کہ ہم دونوں ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں۔

            کبھی کبھی تم میرا قافیہ تنگ کرنے کی خاطر اپنی بیوی کے لیے قیمتی ساڑی یا زیور لے آتے ہو۔ اُسے پہن کر جب تمھاری بیوی شیخی بگھارتی ہے۔ یہ ساڑی پانچ سو میں آئی ہے۔ یہ زیور دو ہزار روپے کا ہے، تو میری بیوی کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں اور وہ اُسی دن سے فرمائش کرنے لگتی ہے کہ اس سے قیمتی ساڑی یا زیور لائیے نہیں تو مجھے کھانا ہضم نہیں ہوگا اور نہ ہی نیند آئے گی۔

گزشتہ اتوار کو تمھاری بیوی نے اپنے بچے کے جنم دن پر پچیس عورتوں کو مدعو کیا۔ اب میری بیوی کا تقاضا ہے کہ دو ہفتوں کے بعد جب میں اپنے بچے کا جنم دن مناؤں گی تو کم از کم پچاس عورتوں کو دعوت دوں گی ورنہ ہمسائی کی نظر سے گر جاؤں گی۔

            ہر بات میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تمنا یہ رنگ لائی ہے کہ اب بیماریوں کے معاملے میں بھی ہم ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ چنانچہ میری بیوی کہتی ہے ، کل رات مٹنے کو ایک سو چارڈ گری بخار تھا۔ بیچارا ساری رات ہائے ہائے کرتا رہا۔ تو تمھاری بیوئی فوراً منہ بنا کر جواب دیتی ہے، ایک سو چار ڈگری بخار بھی کوئی بخار ہوتا ہے؟ تین دن ہوئے ہماری بڑی منی بیمار پڑگئی تھرما میٹر لگایا تو معلوم ہوا ایک سو چھے ڈگری بخار ہے۔ وہ چھے گھنٹے بے ہوش پڑی رہی لیکن میں ذرا بھی نہیں گھبرائی ۔ ڈاکٹر تک کو فون نہیں کیا۔ سوچا، بخار ہی تو ہے۔ خود بخود اتر جائے گا ۔

            ایک دن تمھاری بیوی اور میری بیوی اس موضوع پر بحث کر رہی تھیں کہ سوتے وقت تم زیادہ زور سے خراٹے لیتے ہو یا میں ۔ تمھاری بیوی کہہ رہی تھی ، ” وہ جب خراٹے لیتے ہیں تو ان کے خراٹوں کی آواز ایک فرلانگ سے سنی جاسکتی ہے ۔ میری بیوی اسے بتا رہی تھی ”ہمارے صاحب جب خراٹے لیتے ہیں تو اُن کے خراٹوں کی آواز سول ہسپتال میں سنائی دیتی ہے۔ کئی بار ڈاکٹر ہمارے گھر یہ پوچھنے کے لیے آتے ہیں کہ خیریت تو ہے؟

            ہماری بیویوں کی دیکھا دیکھی ہمارے بچے بھی لاف زنی کی عادت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اگر تمھارا بچہ کہتا ہے ” مجھے ہر روز دو روپے جیب خرچ کے لیے ملتے ہیں، تو میرا بچہ اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے جواب دیتا ہے، اونہہ، صرف دو روپے ! ہمیں تو ہر روز پانچ روپے ملتے ہیں۔ اگر تمھارا بڑا لڑکا کہتا ہے، میرے باپ نے ایک دفعہ مٹی کا تیل بلیک مارکیٹ میں فروخت کر کے سات ہزار روپے کمائے تھے، تو میرا لڑکا اس سے بازی لے جانے کی نیت سے اُسے بتاتا ہے : ” میرے ڈیڈی نے ایک مرتبہ اسکول کے فنڈ سے دس ہزار روپے اڑا لیے تھے ۔

            صورت حال اتنی نازک ہوگئی ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ کسی دن ہم دونوں اپنے بچوں یا بیویوں کے بیانات کی بنا پر گرفتار نہ کر لیے جائیں اس لیے آؤ ، آج سے سمجھوتا کر لیں کہ آئندہ نہ ہم اور نہ ہماری بیویاں اور نہ بچے، ایک دوسرے پر رعب ڈالنے کی کوشش کریں گے بلکہ بڑی شرافت کے ساتھ تسلیم کر لیں گے کہ ہم دونوں معمولی حیثیت کے آدمی ہیں اور اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم رئیس ہیں تو ایک دوسرے کو نہیں صرف اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔

 

Post a Comment

0 Comments