Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حضرت سلمان فارسی – إداره Hazrat Salman Farsi By Idara

 

حضرت سلمان فارسیإداره
Hazrat Salman Farsi By Idara

مندرجہ ذیل مضمون مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایند ہائر سیکنڈری ایجوکیشن   کی جماعت دہم کے مضمون اردو سے ماخذ ہے۔ یہ مضمون طلباء ، اساتذہ اور سرپرستوں کی رہنمائی کے لئے یہاں شائع کیا جاتا ہے۔

            ایران قدیم زمانے ہی سے علم و ہنر کا مرکز رہا ہے۔ انسانی تمدن کا سورج ابھی نصف النہار پر بھی نہ پہنچا ہوگا کہ وہاں کی تہذیب و معاشرت کے چرچے عام ہونے لگے تھے۔ مجوسیوں نے زرتشتی مذہب کو عام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ دنیا کی اولین حکومت کا قیام وہیں عمل میں آیا۔ ساتویں صدی عیسوی میں ساسانی حکومت میں سیاسی تغییرات ہوئے اور فوجی نظام کو ترقی دی گئی۔ حضرت سلمان فارسی ان تبدیلیوں کو دیکھتے رہے مگر حق کو پانے کی لگن ان کے دل میں کروٹیں لیتی رہی۔

            حضرت سلمان کے والد بوڈخشان بن مرسلان اصفہان کے ایک گاؤں جی کے ایک بڑے مجوسی زمیندار تھے۔ کسی وجہ سے انھوں نے جی سے ترک وطن کر کے ہرمز میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ اسی گاؤں میں حضرت سلمان پیدا ہوئے۔ ان کا پہلا نام مابہ تھا۔ وہ اپنے والد کے لیے دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب تھے اسی لیے بچپن سے ان کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔ انھوں نے کم عمری ہی میں مجوسیت کی اس قدر تعلیم حاصل کر لی تھی کہ انھیں آتش کدے کا داروغہ بنا دیا گیا مگر وہ اس مذہب سے مطمئن نہیں تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت سلمان کے والد نے کسی کام کے لیے انھیں کھیت میں جانے کے لیے کہا۔ کھیت کے راستے میں ایک گرجا گھر تھا۔ حضرت سلمان کھیت میں جانے کی بجائے اس گرجا گھر میں چلے گئے اور دیر شام تک وہیں رہے۔ گرجا گھر کی رسومات اور عبادات کے طریقے سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ گھر لوٹ کر انھوں نے ساری روداد اپنے والد کو سنائی ۔ یہ سن کر وہ بہت برہم ہوئے اور حضرت سلمان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں۔

            حضرت سلمان کسی طرح ان بیڑیوں سے آزاد ہوئے اور ایک عیسائی قافلے کے ساتھ ملک شام چلے گئے ۔ وہاں مختلفپادریوں کی خدمت کر کے انھوں نے عیسائی مذہب کی تعلیمات حاصل کیں۔ جب کسی پادری یا راہب کا انتقال ہو جاتا ، حضرت سلمان دوسرے کے پاس چلے جاتے۔ اس طرح انھوں نے اصفہان سے شام، نینوا اور عمور یہ تک سیکڑوں میل کا سفر طے کیا اور تلاش حق کی خاطر کڑی مصیبتیں برداشت کیں۔ بالآخر عموریہ کے راہب نے انھیں یہ بتایا کہ عنقریب حضرت ابراہیم کا دین لے کر ایک نبی مبعوث ہوگا۔ وہ کھجوروں والی زمین کی جانب ہجرت کرے گا۔ اس کے ماننے والے پروانوں کی مانند اس کے اطراف جمع رہیں گے۔ تم اس کی ظاہری نشانیوں سے اسے پہچان لو گے۔ اے سلمان ! سن، اس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ صدقے کا مال نہیں کھائے گا۔ وہ ہدیہ قبول کرے گا اور اس کے شانوں کے درمیان نبوت کی مہر ہوگی ۔

            حضرت سلمان فارسی اب کھجوروں والی زمین تک پہنچنے کے لیے بے قرار رہنے لگے۔ انھوں نے لوگوں سے اس سر زمین کے متعلق دریافت کیا تو پتا چلا کہ یہ عرب کی ایک بہتی مدینہ ہے۔

اتفاق سے اس زمانے میں عموریہ میں عربوں کا ایک قافلہ آیا ہوا تھا۔ حضرت سلمان نے اپنا تمام مال و اسباب اس کے حوالے کر دیا اور اس قافلے میں شامل ہو گئے ۔ وادی قرئی پہنچتے ہی قافلے والوں نے انھیں ایک یہودی کے ہاتھوں غلام کی طرح فروخت کر دیا۔ اس یہودی نے بھی انھیں مدینے کے ایک دوسرے یہودی کے حوالے کر دیا۔ اس طرح حضرت سلمان سخت تکلیفوں کا سامنا کرتے ہوئے کھجوروں والی زمین تک پہنچ گئے ۔ وہ آنے والے نبی تک پہنچنے کے لیے بے چین رہنے لگے۔ ایک دن وہ اپنے یہودی آقا کے باغ میں درخت پر چڑھ رہے تھے کہ کسی نے باغ کے مالک کو یہ خبر سنائی کہ قبا میں چند لوگ ایک شخص کو اپنا نبی کہہ رہے ہیں کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ خبر کا سننا تھا کہ حضرت سلمان کا پچنے لگے۔ نیچے اتر کر انھوں نے نبی سے ملنے کی تدبیریں کیں۔ ایک روز موقع پا کر وہ نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ وہ کچھ کھجوریں اپنے ساتھ لائے تھے۔ انھوں نے کھجور میں یہ کہہ کر رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے۔ آپ نے اس میں سے کچھ بھی نہ چکھا اور ساری کھجوریں اپنے صحابہ کو کھلا دیں ۔ حضرت سلمان یہ دیکھ کر مطمئن ہو گئے کہ راہب کی بتائی ہوئی پہلی نشانی تو صحیح ثابت ہوئی۔ دوسرے موقع پر حضرت سلمان پھر نبی کے پاس پہنچے۔ اس بار کھجوریں دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ تحفہ ہے تو نبی نے انھیں تناول فرمایا اور اپنے صحابہ میں بھی تقسیم کیا۔ اس طرح دوسری نشانی بھی صحیح نکلی ۔ حضرت سلمان اب نبی اکرم کی تیسری نشانی دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ ایک روز وہ نبی کی پشت کی جانب محفل میں بیٹھ گئے ۔ اس وقت آپ کے جسم کا کپڑا ہوا سے سرک گیا اور آپ کی پشت پر موجود مہر نبوت پر حضرت سلمان کی نظر پڑ گئی۔ انھوں نے نہ صرف اس کا دیدار کیا بلکہ اسے چوم کر دیر تک روتے رہے اور اسی محفل میں آپ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر مسلمان ہو گئے۔ یہاں پہنچ کر حضرت سلمان کی تلاش حق کا سفر تمام ہوا۔

            حضرت سلمان اب اہل مدینہ اور مہاجرین کے بھائی بن گئے تھے۔ سب ان کی قدر کرتے اور انھیں عزت کی نظر سے دیکھتے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ابو دردا اور حضرت سلمان کے درمیان رشتہ موافاة قائم کر دیا۔ اخوت کا یہ رشتہ دونوں کے درمیان تاحیات قائم رہا۔ عبادتوں کی کثرت اور اہل خانہ سے غفلت جب حضرت ابو دردا کے معمولات بن گئے تو حضرت سلمان نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ جہاں تم پر اللہ کے حقوق ہیں، وہیں بیوی بچوں کے بھی حقوق ہیں اور رات کو جاگنے کے ساتھ سونا بھی ضروری ہے۔ دوسرے دن یہ دونوں حضرات حضور اکرم کی خدمت میں پہنچے اور رات کے معاملے کو آپ کے سامنے رکھا۔ آپ نے فرمایا،

            سلمان تم سے بڑھ کر دین سے واقف ہیں ۔ یہ بزرگی انھیں حق کی جستجو کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ صحابہ کرام کے ساتھ حضرت سلمان بھی حضور کی مجلس میں شریک تھے۔ آپ نے حضرت سلمان کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ، اگر دین ثریا پر بھی ہوگا تو فارس کا ایک آدمی اس کو پالے گا۔ آپ صحابہ کرام سے فرماتے ، ” جس نے سلمان کو ناراض کیا ، اس نے خدا کو ناراض کیا۔ لوگ جنت کے مشتاق ہوتے ہیں مگر جنت سلمان کی مشتاق ہے ۔

            حضرت سلمان جب تک یہودی کے غلام رہے، وہ اسلامی جنگوں میں شریک نہ ہو سکے۔ رسول اکرم نے تین سو کھجور کے درختوں اور چالیس اوقیہ سونا معاوضہ دے کر حضرت سلمان کو آزاد کرا لیا۔ اب وہ جنگوں میں اپنی صلاحیتوں کا آزادانہ استعمال کرنے لگے۔ مشرکین مکہ اور یہودیوں نے مل کر جب مدینے پر حملے کی تیاریاں شروع کیں ، اس وقت مدینے کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حضرت سلمان فارسی نے شہر کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دیا جسے آپ نے پسند فرمایا۔ خندق کھودی گئی جو اتنی گہری اور چوڑی تھی کہ دشمنوں کے گھوڑے بھی اسے پار نہیں کر سکے اور انھیں پسپا ہونا پڑا۔ خندق کی کھدائی کی وجہ سے اس غزوے کو غزوہ خندق کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد حضرت سلمان مختلف جنگوں میں شریک ہوتے رہے۔ طائف کی جنگ میں ان کی ایما پر مسلمانوں کی جانب سے منجنیق کا استعمال ہوا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کے دور میں بھی حضرت سلمان فارسٹی نے بہت سے جنگی کارنامے انجام دیے۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں جب ایران پر لشکر کشی کی گئی تو اس وقت خود سلمان فارسی اسلامی لشکر کی رہنمائی فرما رہے تھے۔ انھوں نے اولا اپنے ہم وطن ایرانیوں کو مخاطب کیا اور انھیں سمجھایا، ” میں تم ہی میں سے ایک آدمی ہوں ۔ تم دیکھتے ہو کہ عرب میری عزت کرتے ہیں۔ اگر تم اسلام لے آئے تو تمھارے لیے ویسے ہی حقوق ہوں گے جیسے ہمارے لیے ہیں۔ تم پر وہی احکام واجب ہوں گے جو ہم پر ہیں۔ لیکن ایرانیوں نے ان کی باتیں ماننے سے انکار کر دیا تو جنگ لڑی گئی اور دشمن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

            حضرت عمر فاروق کا یہ وہ دور تھا جس میں غلاموں کو ملکوں کا حکمراں اور صفہ کے غربا کو اسلامی ممالک کا ناظم اعلی بنایا جارہا تھا۔ ایسی خوش حالی کے زمانے میں بھی مدائن کے ناظم اعلیٰ حضرت سلمان فارسی کھجور کے باغ میں پیروں کے سائے تلے ٹوکریاں اور چٹائیاں بنتے رہے۔ عشق رسول کی تڑپ میں وہ بے چین رہتے ۔ انھیں لگن لگی تھی تو جنت میں حضرت محمد ﷺ سے ملاقات کی ، آپ کی مصاحبت کی اور آپ کے دیدار کی ۔ اسی فکر میں غلطاں وہ زندگی کے ایام گزار رہے تھے ۔ حکومت کی جانب سے ملنے والا عطیہ وہ خیرات کر دیتے یا لینے سے انکار کی روزانہ کی آمدنی تین درہم تھی۔ ایک درہم میں وہ ٹوکریاں بنانے کے لیے کھجور کے پتے خریدتے ، ایک درہم گھر میں خرچ کرتے اور ایک درہم خیرات کر دیتے۔ یہی ان کے معمولات میں شامل تھا۔ اسی حالت میں حضرت سلمان کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔ وہ سخت علیل تھے۔ جب حضرت سعد بن وقاص ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو انھیں دیکھ کر سلمان فارسی رونے لگے۔ سعد نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا ”حضور نے ہم سے عہد لیا تھا کہ تمھارا ساز و سامان ایک مسافر کے سامان سفر سے زیادہ نہ ہو۔ مگر میرے پاس تو اتنا زیادہ سامان ہے، میں اپنے محبوب کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟“ حضرت سعد فرماتے ہیں کہ اُس وقت حضرت سلمان کا کل اثاثہ ایک بڑا پیالہ اور ایک تسلا تھا۔

            حضرت سلمان فارسی سن ۳۳ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ انتقال کے وقت وہ اتنی برس کے تھے۔ ان کا مزار مدائن(عراق) میں ہے۔

 

 

Post a Comment

0 Comments