دستر خوان - وزیر آغا
Dastar
Khwan By Wazeer Aagaz
مندرجہ ذیل مضمون مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایند ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کی جماعت دہم کے مضمون اردو سے ماخذ ہے۔ یہ مضمون طلباء ، اساتذہ اور سرپرستوں کی رہنمائی کے لئے یہاں شائع کیا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ فرش
پر دستر خوان بچھاتے ، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز
بچھ گئی جس پر کھانا چن دیا جاتا۔ پہلے وہ سر جوڑ کر کھاتے تھے، اب سروں کے درمیان
فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مد مقابل نظر آنے لگا۔ مگر زمانہ کبھی
ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ بدلی تو سب ۔ مڑے ہو
کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی
ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان
ایا ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جبکہ جنگی مخلوق چرا گاہوں میں چرتی
پھرتی تھی اور پرندے دانے ڈنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختہ مشق بناتے تھے، اب
باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکان چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے
آملے۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ
کیا ہماری تہذیب
سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے کیونکہ ہم
نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت ترک کر کے، کھڑے ہو کر اور پھر چل کر
کھانا کھانے کے وتیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے اور دانہ دنکا چکنے ہی کا ایک جدید
روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ
دیکھیے کہ اس کے قبضہ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے، فقط یہ
دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے
پٹھانوں کی ایک ٹولی وارد ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر کپڑا بیچنے
کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے
کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شور بے سے بھری ہوئی پرات بحر الکاہل کا منظر
دکھاتی جس میں گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح اُبھری ہوئیدکھائی دیتیں۔ وہ
ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے
ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے ۔ جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام
پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللہ کا پاک نام لے کر
کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رک رک کر بھہر ٹھہر کر کھاتے مگر بغیر ز کے بے
تکان بولتے ۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ میں انھیں
دیکھتا اور خوش ہوتا ۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور برادرانہ محبت میں لتھڑا
ہوا ایک آدھ لقمہ میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا
تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاک اللہ کے الفاظ وصول کرنے
کے بعد اپنے منہ میں ڈالتا۔ محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں
کے سامنے اُبھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں
دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرز عمل سے موازنہ کرتا
تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی
خالہ کے گردا گرد بچوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے، جب بڑی خالہ کھانا
تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں بانڈی میں ڈولی کے غوطے لگانے اور پھر
وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اُترنے کے عمل کو ہمیشہ شک
کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتا بڑی ہوئی چلی جاتی تو بس قیامت ہی
آجاتی ۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرجدار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے
کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا
منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی ہے۔
اس زمانے میں کبھی کبھار ایک انگریز افسر بھی والد صاحب سے
گھوڑے خرید نے آ جاتا۔ والد صاحب اس کے لیے میز کری لگواتے ، انگریزی کھانا تیار
کرواتے اور پھر گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ۔ ہمیں اس سے بہت ڈر لگتا
تھا اس لیے ہم اکثر کھڑکی کی جالی کے ساتھ چہرہ لگا کر اسے کھانا کھاتے ہوئے
دیکھتے اور حیران ہوتے کہ صاحب بہادر کھانا کھا رہا ہے یا آپریشن کر رہا ہے۔ وہ
اپنی پلیٹ میں ایک ابلا ہوا آلو لے کر بیٹھ جاتا اور پھر چھریوں اور کانٹوں سے
گھنٹوں اس کے پر خچے اڑاتا رہتا۔ یوں لگتا جیسے وہ میدان جنگ میں کھڑا ہے۔ آلو اس
کا دشمن ہے جسے وہ اپنے اسلحے کی مدد سے زیر کرنے میں مصروف ہے ۔ وہ جو کھانے کے
معاملے میں رواداری ، مفاہمت اور لطف اندوزی کا رویہ ہوتا ہے اس انگریز افسر میں
مجھے قطعاً نظر نہ آیا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی
روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا۔ اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی
اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس
میں شرمندہ ہونے کی قطعا کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا
ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے مثلا یہی دیکھیے
کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ
کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند
ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں ، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے
ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما دریا دلی اور مروّت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں
غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس
کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوشگوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو
ہماری ہزاروں برس کی تہذیب کا مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں
ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مد مقابل ہے اور اگر آپ کی ذرا بھی آنکھ جھپکی
تو وہ آپ کی پلیٹ پرہاتھ صاف کر جائے گا۔ دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے
ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریک طعام حد درجہ شریف دکھائی
دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بونے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی اور
چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہوگا اور ڈارون کا جہد للبقاء کا نظریہ بالکل سچا اور
برحق نظر آئے گا۔
دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر
خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر
دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے
حتی کہ اچار، چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر
بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے
کہ یا تو میزبان نے حق میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں
پہچانا۔
دستر خوان کی خوبی یہ ہے کہ وہ زمین کے سینے سے چمٹا رہتا
ہے تا کہ وہ براہ راست زمین سے اس کی پر اسرار قوت کشید کر سکے۔ جب آپ دستر خوان
پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو اس کی غذائیت ہزار گنا بڑھ جاتی ہے جب کہ میز کرسی
پر یا چل پھر کر کھانا کھائیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کھانے میں وہ برقی رو
موجود نہیں جو زمین کی شریانوں سے دسترخوان کی قوسوں اور پھر وہاں سے انسان کی
رگوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچتی ہے۔
دستر خوان آپ کو زمین کے لمس ہی سے آشنا نہیں کرتا بلکہ
انگلیوں کے لمس سے بھی متعارف کرواتا ہے۔ چھری کانٹے یا چھے سے کھانا کھانے میں وہ
لطف کہاں جو ہاتھ سے کھانے میں ہے۔ اس میں دوہرا لطف ہے؛ ایک تو اس چیز کا لطف جو
کھائی جارہی ہے، دوسرے انگلیوں کالمس۔
دستر خوان ہی پر آپ کو پہلی بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ
ہر کھانے والے کی زبان، تالو، دانت اور ہونٹ کھانے کے دوران مل جل کر ایک ایسی
مخصوص آواز نکالتے ہیں جو نہ صرف دوسری آوازوں سے مختلف ہوتی ہے بلکہ جس میں کھانے
والے کی ساری شخصیت سمائی ہوتی ہے۔ کسی شخص کے اصل کردار سے آشنا ہونا ہو تو کھانے
کے دوران اس کے منہ سے برآمد ہونے والی آوازوں پر کان دھریں کیونکہ ہر شخص کے اندر
کی ساری شرافت یا خباثت اس کے کھانے کی آواز ہی میں مضمر ہوتی ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دستر
خوان پر پوری دلجمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی
کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوشبو اور
بد بو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سوگز کی دوڑ میں ہے۔
0 Comments