At step of Masjid
مسجد کے دروازے پر
مسجد کے دروازے پر
(a short story by Khatib Afsar)
افسانہ: خطیب افسر
آج پھر اسلم کے گھر شور شرابا تھا۔ ابھی مغرب کی نماز نہیں ہوئی تھی۔ نمازی مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح میاں بیوی کے جھگڑے جاری تھے۔ میاں بیوی کے روز روز کے جھگڑوں سے پریشان والدین کھیت میں جھونپڑی بنا کر رہنے لگے تھے۔ آس پڑوس کے لوگ بھی اُوب گئے تھے۔شام ہوگئی۔ تونے ابھی تک کھاناکیوں نہیں بنایا۔“ ............اسلم فریدہ سے پوچھتا ہے۔
کیا بناوں، گھر میں نہ آٹا ہے نہ دال“................فریدہ نے اونچی آواز میں اسلم سے کہا۔
”یہ پانچ پوتوں میں باجری ہے........................لکڑی کا بھوسا نہیں ہے۔“
”باجری میں نہیں کھانے والی،میںاپنے مائیکے میں گیہوں، چاول،گھی، کھاتی تھی۔“اللہ کا شکر ادا کرو کہ یہ مل رہا ہے، دوسروں کو تو یہ بھی نصیب نہیں................................تو اب میرے گھر میں ہے، اپنے ماں باپ کے گھر کو بھول جا، جو میں کھلاوں گا وہ تجھے کھانا پڑے گا۔ میں جو پہناوں گا تجھے پہنا پڑے گا۔
” میں نے کتنی مرتبہ کہا کہ اپنے کھیت کے علاوہ دوسرعوں کے کھیت میں بھی مزدوری کرو................ وہاں سے کچھ آمدنی ہوگی تو کچھ حالات بھی سدھر جائے گے۔
” میں انسان ہوں جانور نہیں........................!
فریدہ کے مائکے والوں کی مالی حالت بہتر تھی۔ فریدہ بڑے لاڈ پیار سے پل کر بڑی ہوئی تھی۔ اس کے بر خلاف اسلم کی مالی حالت خستہ تھی۔ وہ سیدھی سادی زندگی گزارتا تھا۔ دونوں ہم خیال نہ تھے۔............ اس لئے روز روز کے جھگڑوں سے پریشان رہنے لگے۔
کچھ دنوں بعد اسلم کے والد بیمار ہو گئے۔ علاج کے لئے کافی روپیوں کی ضرورت پڑی............ اسلم نے اپنا کھیت ساہوکار کے پاس رہن رکھ دیا۔............لیکن والد کا انتقال ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد والدہ بھی چل بسیں۔
اسلم پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، ایک سال میں ساہوکار کا قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں سہوکار نے کھیت ہڑپ لیا۔ اسلم چاہتا کہ فریدہ اس کا ساتھ دے، وہ اسلم کے حالات کو سمجھے لیکن فریدہ کو احساس ہی نہ تھا۔
شہر میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور فساد میں فریدہ کے والدین معاشی طور پر برباد ہوگئے....................
پڑوس کے کھیت میں کنویں کی کھدائی کا کام جاری تھا۔ اسلم نے ٤٠روپیئے یومیہ پر مزدوری کر لی۔ ابھی دوسرا ہی دن تھا۔ کنویں پر اسلم کے علاوہ بھی تین لوگ کام کر رہے تھے کہ کرین کا تار ٹوٹ گیا اور پتھروں سے بھرا پلڑا اسلم کے اوپر گر پڑا۔ اسلم جائے واردات پر فوت ہوگیا۔
خون میں لت پت اسلم کی لاش کو فریدہ نے دیکھتے ہی بے ہوش ہو کر گر پڑی................ جب ا سے ہوش آیا تو وہ مسجد کے دروازہ پر تھی اور نمازی مسجد سے نکل کر اس کے کشکول میں سکے ڈال رہے تھے۔
0 Comments